تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری ،جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت کشگوری)سپریم کورٹ نے سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ،53 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے ،جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ تفصیلی فیصلے میں شامل ہے،جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلہ کا حصہ ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیاہے کہ سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے،سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے،سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کی ڈیکلیئریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی،الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ آرٹیکل 62 ون ایف میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں،آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا تصور بنیادی حقوق کی شقوں سے ہم آہنگ نہیں،ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر آرٹیکل 62 میں تاحیات نااہلی کی شق شامل کرائی،تاحیات نااہلی انتخابات لڑنے اور عوام کے ووٹ کے حق سے متصادم ہے،عدالت الیکشن ایکٹ کے سکوپ کو موجودہ کیس میں نہیں دیکھ رہی،آرٹیکل 62 ون ایف کو تنہا پڑھا جائے تو اس کے تحت سزا نہیں ہوسکتی،آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لا کیا ہے،آرٹیکل 62 ون ایف واضح نہیں کرتا کہ ڈیکلریشن کس نے دینی ہے،ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح کرے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سابق جج عمر عطا بندیال نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ لکھا اور خود فیصلے کی نفی بھی کی،سابق جج عمر عطا بندیال نے فیصل واوڈا اور اللہ دینو بھائیو کیس میں اپنے ہی فیصلے کی نفی کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ تاحیات نااہلی ختم کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مستقل یا تاحیات نہیں،آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کورٹ آف لا کی ڈیکلریشن تک محدود ہے، نااہلی تب تک برقرار رہتی ہے جب تک کورٹ آف لا کی ڈیکلریشن موجود ہو،سپریم کورٹ کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ درست تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا اسمبلی کے کتنے نومنتخب آزاد ارکان نے بیان حلفی جمع کرا دیئے؟ الیکشن کمیشن بھی حیران