پی ٹی آئی قیادت کی آرمی چیف سے ملاقات کی خبروں کی گونج میں بالآخر190 ملین پونڈ کے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو 14 سال قید کی سزا سنا دی گئی،اِس عدالتی فیصلے نے ایک تو خان کے حق میں امریکی مداخلت کے تاثر کو زائل کیا دوسرا یہ بھی عین ممکن ہے کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں خان کی اپیل سے قبل پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان’’مفاہمت‘‘ کی کوئی راہ نکال لی جائے۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہماری مقتدرہ سمیت پوری قومی قیادت سیاسی نظام میں پائی جانے والی نئی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر رہی،وہ حسب سابق خوف و ترغیب کے ہتھکنڈوں کے ذریعے جبری مفاہمت تک پہنچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے،تاہم خان کی سرشت میں ایسی کسی مفاہمت کو قبول کرنا شامل نہیں ہے کیونکہ اب وہ اپنے طرز عمل سے قومی سیاست میں ایسی Episteme پیدا کر چکے ہیں،جس کے سائے سے کسی کے لئے بھی باہر نکلنا ممکن نہیں رہا،ان کا سیاسی بیانیہ متنوع خیالات اور متضاد مفروضوں کا ایسا پیچیدہ مجموعہ ہے جو شعوری طور پر اس عہد کی سیاسی،سماجی اور اخلاقی اقدار کو منہدم اور علم کے طور پر قبول کر لی جانے والی فکر کو روک سکتا ہے، جس کے نتیجے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سماجی انقلاب برپا کرکے ایسا عہد نو تخلیق کرنے کے قابل ہو رہی ہے جو مذہبی ،سماجی اور سیاسی اداروں کی نوعیت کا از سر نو تعین کرے گا ۔ علی ہذالقیاس ، ماضی کے مقبول لیڈرز کی طرح عمران خان نے بھی اقتدار تک رسائی کے لئے ملک کی طاقتور فوج کے ساتھ مل کر سویلین بالادستی کی حامی روایتی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی قیمت کے طور پہ بے اختیار اقتدار حاصل کیا لیکن اپریل 2022 میں جب انہیں پارلیمانی عدم اعتماد ووٹ کے ذریعے وزرات عظمیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا تو اُس کے بعد سے وہ سیاست پر جرنیلوں کی آہنی گرفت کے خلاف مزاحمت پہ کمر بستہ ہو گئے،انہوں نے نومبر 2022 میں خود پہ مبینہ قاتلانہ حملے کا الزام سینئر فوجی حکام پر دھر کر دانستہ فوج کے ساتھ تلخیوں کو بڑھایا چنانچہ ایک فوجدارای مقدمہ میں اُن کی گرفتاری کے بعد 9 مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے حامیوں نے فوج کے خلاف بے مثال ردعمل میں دفاعی تنصیبات پر حملوں کے علاوہ ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ کر کے جرنیلوں کے خلاف عوامی غصہ کو عروج تک پہنچا دیا۔
توقع کے عین مطابق فوج نے 9 مئی کو ’’یوم سیاہ‘‘قرار دیکر ملوث افراد کو سزائیں دینے کے اپنے عزم کی تکمیل کی خاطر پی ٹی آئی کے کم و بیش 5 ہزار حامیوں کو گرفتار کر لیا ، اُن میں سے کچھ کو تو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوا دی گئیں۔ عمران کو کمزور کرنے کی خاطر اُن کی جماعت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کے دوران درجنوں بااثر رہنماؤں اور فعال ورکرز کو پارٹی سے انحراف کی راہ دکھائی گئی لیکن یہ مساعی بھی کارگر ثابت نہ ہوئی ۔ ماضی قریب میں فوج کے ترجمان نے مختلف پریس کانفرنسوں میں پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کے رابطوں کی تردید کرتے ہوئے 9 مئی کے ماسٹر مائنڈز سے مفاہمت کے امکان کو مسترد کیا لیکن پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بدھ کے روز اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’’ہاں ، میں نے چند دن قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کرکے پارٹی کی فوج کے خلاف دو سالوں پہ محیط مزاحمت کا احاطہ کیا ہے لیکن فی الحال میرے لئے ایسی ملاقاتوں کی تفصیل ظاہر کرنا ممکن نہیں ، پی ٹی آئی نے جمعرات کی سہ پہر مذاکرات کے تیسرے دور میں حکومت کو اپنے دو اہم مطالبات تحریری طور پر پیش کئے جن میں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے علاوہ پُرتشدد مظاہروں کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ شامل ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے انکار،حکومت کا پی ٹی آئی مطالبات پر جواب تیار
پی ٹی آئی مذاکرات کے ابتدائی مرحلہ میں 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے مظاہروں، جن میں اُن کے کارکنوں پر آتش زنی اور بغاوت جیسے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں، کے عدالتی ٹرائل کی بجائے اعلیٰ سطحی جوڈیشل انکوائری کی سہولت لینا چاہتی ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی پوری قیادت کی طرف سے دباؤ کے باوجود عمران خان مفاہمت پہ تیار نہیں کیونکہ انہوں نے مارٹن لوتھر کی طرح اپنی سیاست کی بنیاد مخالفین پہ جھوٹے الزامات عائد کرکے ہمہ وقت انہیں رائے عامہ کے سامنے جوابدہ ٹھہرانے اور پھر اُن ’’کرپٹ‘‘ لوگوں سے بات چیت اور مفاہمت کو مسترد کرنے کے اصول پہ رکھی تھی،پچھلے بیس سالوں میں وہ اسی بیانیہ کی گونج میں اقتدار تک رسائی کے علاوہ کئی ناپسندیدہ تبدیلیوں کو ہمارے معاشرے کے لئے گوارا بنا چکے ہیں یعنی وہ ہمارے سیاسی ماحول میں ایک ایسا گروہ پروان چڑھانے میں کامیاب رہے جس نے ماضی کی منجمد اقدار اور مذہبی و سیاسی تمدن کے روایتی تصورات کو یکسر بدل ڈالا اور اُن کے اِسی جنون کی کوکھ سے مذہبی فرقوں کی مانند گہرے تعصب سے لبریز پیروکاروں کا ایسا نظریاتی گروہ پیدا ہو گیا جن کا سیاسی شعورایک قسم کی پیچیدہ عصبیت میں گندھا ہوا ہے ، خان اسی عصبیت کے بل بوتے قومی سیاست پہ مقتدرہ کی حتمی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے 7 دن میں کمیشن نہ بنا تو چوتھی میٹنگ نہیں ہو گی: بیرسٹر گوہر
اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ سیاسی بیانیہ کے میدان میں عمران خان مقتدرہ سمیت اپنے سیاسی حریفوں کو شکست فاش دے چکے ہیں،اخلاقی مفاسد اور بدعنوانی کے الزامات میں سزاؤں کے باوجود ان کی مقبولیت بڑھتی گئی ،عالمی سطح پر اپنے سیاسی مفادات کی خاطر قومی سلامتی کے اساسی اصولوں اور اسلام کے اعلیٰ ترین مقاصد کے خلاف پوزیشن لیکر بھی وہ ملکی رائے عامہ کی بھرپور حمایت انجوائے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ریاستی مقتدرہ کی طرف سے عوام کی نظروں میں انہیں غدار ، ملک دشمن ، بد کردار اور بدعنوان ثابت کرنے کے روایتی ہتھکنڈے بیکار ثابت ہوئے حتٰی کہ منبر و محراب کے فتاوی اور ایوان عدل کی تعزیر بھی خان کو غیر مقبول بنانے کی مشق بھی ناکام رہی ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں تو عمران خان کے حامیوں کی جارحانہ مہمات اور نفرت انگیز ٹرولنگ سے ڈر کر پہلے ہی دفاعی پوزیشن لے چکی تھیں لیکن اب تو مولانا طارق جمیل جیسے مقبول مذہبی لیڈر سے لیکر مفتی تقی عثمانی جیسے بلند مرتبت عالم دین سمیت کوئی کج کلاہ عمران کی مخالفت کرکے اپنی ساکھ نہیں بچا سکتا۔ابھی چند ماہ قبل باجوڑ جیسے سخت گیر مذہبی علاقے میں عمران خان کے خلاف فتویٰ دینے پر پی ٹی آئی کے حامیوں نے خطیبوں کی داڑھیاں نوچ ڈالیں جس پہ کسی بڑے مذہبی رہنما نے لب کشائی کی جرأت نہ کی۔پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے مسلمہ مذہبی عقائد کے ابطال کے باوجود ٹی ٹی پی جیسے سخت گیر مسلح گروہ عمران خان کی حمایت کا دم بھرتے ہیں ۔ عشق رسولﷺ کا دعویٰ رکھنے والے لیبک کے سرفروش بھی خان کی لن ترانیوں سے صرف نظر کرنے پہ مجبور نظر آتے ہیں ۔عالمی طاقتوں بالخصوص امریکی مقتدرہ بوجوہ ان کی دائیں جانب کھڑی نظر آتی ہے چنانچہ ایسے میں صرف مفاہمت ہی ایک ایسا دام ہم رنگ زمین باقی بچا جسے عمران کے بڑھتے ہوئے اثرات کے سامنے بند باندھنے کے لئے آزمایا جا سکتا تھا ۔ ویسے تو جس طرح ڈیگال نے کہا تھا کہ سیاست میں فیصلہ ہمیشہ تلوار کرتی ہے لیکن عین میدان جنگ میں مفاہمت کی کوشش تو کئی لامتناہی جنگوں کی محرک بن سکتی ہے،تاہم جدید تاریخ میں سیاسی مفاہمت کی نمایاں ترین مثال جنوبی افریقہ کے سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا نے قائم کی جس کے نتیجے میں سفید فام اشرافیہ کو اپنی بالادستی سرنڈر کرنا پڑی ، کیا یہاں بھی مفاہمت سے مراد یہی ہے کہ قومی بیانیہ اور ملکی پالیسی پہ فوج اپنی حتمی اجارہ داری سرنڈر کر دے گی ؟ ہمارے خیال میں فی الحال ایسا ممکن نہیں کیونکہ پاکستانی سیاسی روایت میں مفاہمت سے مراد چند رعایتوں کے عوض آئین کی عملداری اور سویلین بالادستی کے مطالبات سے دستبراری ہی کو مفاہمت کہا جاتا ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر