نسل کشی کی ذمہ داری اور حریت کانفرنس کا کردار
سید نذیر گیلانی
Stay tuned with 24 News HD Android App
حریت کانفرنس نے قوم کو ایک آئین دیا اور اپنی سیاست کے اغراض ومقاصد بیان کئے، یہ ایک مثبت شروعات تھی، اقوام متحدہ کی ٹمپلیٹ کو اپنی سیاست کی بنیاد قرار تو دیا، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہی کہ ان اولین میں کوئی ایک شخصیت بھی اس ٹمپلیٹ کی جیورسپروڈنس کا علم نہیں رکھتی تھی، اور نہ ہی اس پر سنجیدگی کے ساتھ کام ہوا۔
سب سے پہلی اور بڑی غلطی یہ تھی کہ اس پلیٹ فارم نے اقوام متحدہ کا نمائندگی کا بینچ مارک نظر انداز کیا، یا یوں کہیں انہیں اس کا علم ہی نہیں تھا، اس کم فہمی کی وجہ بنیادی عناصر کو نظرانداز کیا گیا اور حریت کانفرنس شمولیت کی ضرورت پوری کرنے میں ناکام ہوئی، نہ ہی اس نے مقامی سطح پر حکومت آزاد کشمیر سے، اس حکومت کی ذمہ داریوں کے بارے میں کوئی سوال پوچھا۔
اس کمی کے باوجود حریت کانفرنس کی مقصدیت اور قانونی حیثیت کی ایک بڑی کانسٹیچونسی سامنے آئی، ہندوستان، پاکستان اور بیرون ریاست اس کے رول کو محسوس کیا جانے لگا، ہندوستان نے فروری 1995 میں دہلی میں کشمیر ایورنس بیورو (Kashmir Awareness Bureau) کھولنے کی اجازت دی، تکنیکی اعتبار سے یہ کشمیریوں کا دہلی میں سفارت خانہ تھا، دنیا کے تمام سفارت خانے اس کشمیر ایورنس بیورو (KAB) کی پہنچ میں تھے۔
ہندوستان پر خود ہندوستان کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھ رہا تھا، ہندوستان کے خلاف اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن اور سب کمیشن میں دو ریزولیوشن L40 اور L21 پیش ہوئے، اسلامک سمٹ کاسابلانکا میں بہت اہم قرارداد پاس ہوئی اور امدا کا ایک بڑا دروازہ کھل گیا، حکومت پاکستان نے سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد کا جملہ دہرایا اور حریت کو گود لے لیا۔
حریت نے قضئیہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی ٹمپلیٹ کے مطابق حل کرنے کا دعوٰی تو کیا، مگر 31 جولائی 1993 سے لے کر 5 اگست 2019 اور تہاڑ جیل جانے تک اس کی وضاحت نہیں کی کہ اقوام متحدہ کی ٹمپلیٹ کیا ہے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی بلکہ ہندوستان اور پاکستان کو یہ یاد دلانا تھا کہ آپ نے غیر فوجی کاری (Demilitarisation) پر عمل درآمدگی کے 12 نکات میں سے 10 پر اتفاق کیا ہے، آئیں بیٹھ کر باقی ماندہ 2 نکات پر بھی اتفاق تلاش کریں۔
اللہ جانے یہ لوگ کیا کرتے رہے؟ پہلا جھگڑا اس بات سے شروع ہوا کہ ہیومن رائٹس کمیشن اور سب کمیشن کے اجلاسوں میں جنیوا کون جائے گا، جھگڑا اس قدر بڑھا کہ ’آں دفتر را گاو خورد‘ سپانسر کو بہانہ مل گیا اور وہ چیپٹر بند ہوگیا، اسی طرح آزاد کشمیر سے ایک الگ حج وفد بھیجنے کی روایت بھی ختم کر دی گئی، یہ روایت حریت کانفرنس کے وجود میں آنے سے بہت پہلے ختم کر دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل مارشل لاءاور ریورس انجینئرنگ، آگے کیا ہونے جا رہاہے؟
صدر مشرف نے بھی دہلی پریس کانفرنس میں حریت کانفرنس کی قیادت کو ہدایت کی اور کہا اپنے دفاغ کو استعمال کریں، خدا کا کوئی ایک بندہ بھی سامنے نہیں آیا اور صدر پاکستان سے پوچھتا کہ جناب ہم نے تو دماغ آپ کے سپرد کیا ہے، آپ ہمیں درست سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد دیں۔
نہ ہندوستان نہ پاکستان اور نہ ہی اقوام متحدہ کو یو این ٹیمپلٹ (UN template) کی ضرورت کے تحت رجوع کیا اور نہ آج تک باقی 2 نکات پر اتفاق تلاش کرنے کی تحریک کی، اپنے کیس کو ٹچ ہی نہیں کیا، دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کیس نجی مفاد کی ایک سپر مارکیٹ بن گیا، اس میں اسلام آباد کے شرفاء بھی شامل ہوگئے، حقوق کی تحریک (Rights Movement) برائے نام اور نمائش رہ گئی۔
حریت کانفرنس میں علم کشمیریات کی صلاحیت نہیں تھی، ایک معتبر پلیٹ فارم جو پہلے جامع نہیں تھا اب ایک نجی غیر جمہوری تجارتی اور غیر جوابدہ (private undemocratic commercial and unaccountable) ادارہ بن گیا، نسل کشی جاری رہی اور سفارتی، سیاسی اور اخلاقی سپورٹ کا نعرہ بھی لگتا رہا۔