اسرائیل کی مسلح افواج نے 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ پر اپنے وحشیانہ حملوں کا آغاز کیا تھا۔حماس کی کارروائی کے ردعمل میں اس نے فضائی اور زمینی بمباری کرکے غزہ کی پٹی کے تمام شہروں اور قصبوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا ہے اور محصور فلسطینی علاقے میں شاید ہی کوئی اقامتی عمارت ، عبادت گاہ یا دفاتر صحیح وسلامت حالت میں باقی بچے ہوں۔اسرائیل کی اس وحشیانہ جارحیت کے باوجود عالم اسلام غفلت کی نیند سورہا ہے،اسلامی ممالک کی حکومتیں صرف زبانی جمع خرچ کررہی ہیں اور پھس پھسے میں آٹھ دس روز کے بعد اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں ایک آدھ بیان کردیتی ہیں۔
دوسری جانب اہل مغرب کے انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوؤں اور آدرشوں کے روزانہ ہی غزہ کی پٹی میں جنازے نکلتے ہیں۔امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف ننگی جارحیت کی نہ صرف پشتیبانی کررہے ہیں بلکہ صہیونی مسلح افواج کو نہتے فلسطینیوں کو موت کی نیند سلانے ،اپاہج کرنے اور بے گھر کرنے کے لیے ہر قسم کا جدید اسلحہ اور خطرناک تباہ کن بم مہیا کررہے ہیں۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو،ہزاروں فلسطینی بچے ، بوڑھے،نوجوان ، عورتیں ، مرد شہید ہوگئے اور ان مردہ ضمیر اہل مغرب کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔دنیا نے ایسا ظلم وستم کم ہی دیکھا ہوگا کہ ایک قوم کی منظم طریقے سے بلا روک ٹوک نسل کشی کی جارہی ہے اور اسرائیل کو کوئی عالمی ادارہ ، کوئی ملک پوچھنے والا ہی نہیں۔اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کی جنگ بندی کی اپیلیں صدابصحرا ثابت ہورہی ہیں اور یوں نظرآتا ہے کہ اس عالمی ادارے کی قیام امن میں کوئی افادیت ہے اور نہ کوئی کردار۔حد یہ ہے کہ استعماری قوتوں کا ایجنٹ عالمی میڈیا جو آزادیِ اظہار کے گن گاتے نہیں تھکتا ، وہ بھی نہتے فلسطینیوں پر مظالم کی حقیقی تصویر پیش کررہا ہے اور نہ غزہ میں جنگ کی شفاف اور منصفانہ انداز میں کوریج کررہا ہے بلکہ اپنے طرزعمل سے ،ایک طرح سے وہ اسرائیل کے ظلم وسفاکیت کی پردہ پوشی کررہا ہے۔
یہاں ہم لیلیٰ بی کے شکریے کے ساتھ ان کے مرتب کردہ جنگ کے اعداد وشمار پیش کررہے ہیں۔ان سے قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ اب تک اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری اور ننگی زمینی جارحیت میں کتنے فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں:
42,510 فلسطینی شہید - (ہر روز اوسطاً 212 فلسطینیوں کی شہادت)
16 سال سے کم عمر > 15,000 بچے شہید
70,000 سے زیادہ شہری زخمی۔ ان میں زیادہ تر مکمل طور پر معذور ، اپاہج ہوچکے ہیں۔ان کے ہاتھ ، پاؤں ،ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔سر،گردن ، چہرے اور چھاتیاں زخموں سے چور ہیں۔اکثر نفسیاتی صدمے سے دوچار ہیں۔
200 سے زیادہ صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران میں شہید ہوئے ہیں۔
طبی عملہ کے 365 ارکان مارے گئے۔
224 انسانی امدادی کارکنان اپنی امدادی سرگرمیوں کے دوران میں اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے یا فضائی بمباری کی زد میں آئے ہیں۔
شہری دفاع کے 42 اہل کار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔
سفید جھنڈے تھامے لاتعداد فلسطینیوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
غذائی امداد کے منتظر 120 شہریوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔
جنگ کے نتیجے میں غزہ کی 90 فی صد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔
علاقے کا 70 فی صد انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔
غزہ کی پٹی میں واقع تمام جامعات ، پرائمری اور ثانوی تعلیم کے اداروں کو بموں سے اڑا دیا گیا یا بلڈوزروں سے مسمار کر دیا گیا ہے۔
تمام اسپتالوں کو بلاتمیز بمباری کرکے تباہ کردیا گیا ہے۔سیکڑوں مساجد کو شہید کیا جاچکا ہے۔ان میں بہت سی تاریخی مساجد بھی شامل ہیں۔
بیرون ممالک سے آنے والی انسانی امداد کوغزہ کی پٹی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔اس عمل میں مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی سرزمین پر لابسائے گئے یہودی آبادکار سب سے پیش پیش ہیں۔وہ سڑکوں کو پتھروں یا دوسری رکاوٹوں سے مسدود کررہے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنے والی فوٹیج میں یہودی آبادکاروں کو امدادی سامان سے لدے ٹرکوں کو غزہ کی پٹی کی جانب جانے سے روکتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے زخمیوں کو اٹھانے والی ایمبولینسوں کو بھی نہیں بخشا اور ان پر بھی بمباری کی ہے۔
اسرائیل اب انسانی امداد کو روک کر بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
ضرورپڑھیں:ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق
اس مختصر تفصیل سے عیاں ہے کہ مشرق اوسط میں واقع یہ واحد چھوٹی سی صہیونی ریاست فلسطینیوں کے ساتھ دشمنی میں اس حد تک گزرجائے گی ، شاید کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا؟حالیہ تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی اور مثال نہیں ملتی جب ایک ملک نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ اس قدر سفاکانہ اور بہیمانہ سلوک کیا ہو اور ظلم وجبر کے تمام ریکارڈ ہی توڑ دیے ہوں۔ یادرہے کہ دوسری عالمی جنگ کے وقت نازی جرمنی فرانس ، برطانیہ ، بیلجیئم ، نیدرلینڈز ، پولینڈ ، سوویت یونین جیسے دشمن ممالک سے گھرا ہوا تھا مگر ان ممالک نے بھی نازیوں کی یہود کے خلاف کارروائیوں کے ردعمل میں اس طرح کا سلوک نہیں کیا ہو گا جیسا اس وقت اسرائیلی فوج اپنے انتہاپسند وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں فلسطینیوں کے خلاف کررہی ہے۔
اگر کوئی اسرائیل کی ان چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تواس کو یہود دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور صہیونی ہرکارے اور میڈیا میں موجود ان کے نمایندے اس شخص یا تنظیم کی مذمت میں میدان میں اتر آتے ہیں۔ گویا قابض ریاست اسرائیل کو یہود دشمنی کے انسداد کے لیے ہرقسم کے مظالم کی کھلی چھوٹ ہے۔مشہور مصنف فنکلسٹائن نے سنہ 2000 میں شائع شدہ اپنی کتاب "ہولوکاسٹ انڈسٹری" میں اس پہلو کی جانب اشارہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہےکہ اسرائیل اور اس کے حامیوں نے جان بوجھ کر نازیوں کے ہاتھوں یہود کی نسل کشی کی یاد کا استحصال کیا ہے تاکہ یہودی ریاست اور اس کے انسانی حقوق کے "خوفناک" ریکارڈ پر تنقید کو دبایا جا سکے۔
اسٹاکٹن یونیورسٹی میں ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے مطالعے کے ایسوسی ایٹ پروفیسر راز سیگل کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا حملہ ’’ہماری آنکھوں کے سامنے نسل کشی کا ایک نصابی کیس ہے‘‘۔ان کا ایک ٹوی وی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’’سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ برطانوی حکومت، امریکی حکومت اور دیگر افراد اپنے ''پاگل کتے'' کو لگام دیں اور بچوں کا قتلِ عام بند کریں‘‘۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر