سند ھ کا نسائی فلسفہ و تصوف !
اسلم اعوان
Stay tuned with 24 News HD Android App
قدیم سندھ کے نسائی فلسفہ اور تصوف کے کلاسیکی رجحانات کی ماورائے تعقل تفہیم سے مزیّن رانا محبوب کی کتاب "سندھ گُلال" اگرچہ بجائے خود سندھ کی معرفت پہ مبنی ایسے منفرد سفرنامہ پہ مشتمل ہے جو بادی النظری میں انسان کے اجتماعی شعور کی صورت گری کے برعکس دھرتی سے مجازی محبت کے افسانوں کو حقیقت کے لبادے پہنانے کی مساعی نظر آتی ہے تاہم پیش نظر کتاب”سندھ گُلال“ میں قرون وسطی کے عربی، ایرانی،ہندوستانی اور یونانی تصوف سی جڑی سری جدلیاتی کو سندھی تہذیب کی یاسیت سے مربوط بنانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ۔ فاضل محقق رانا محبوب اپنی وسعت مطالعہ، پرواز تخیل اور طلاقت لسانی کے باعت فلسفہ و ادب کی گہرائیوں میں جھانکنے کا ہنر خوب جانتے ہیں لیکن صوفیوں کی طرح ان کی لبریزِ الم بصیرت، جو دراصل فرقتِ وطن کے آشوب کا شاخسانہ ہے، فطرت کی بوقلمونی ، زندگی کے تنوّع اور کائنات کی ساری وسعتوں کو دھرتی کی محبت میں سمونا چاہتی ہے ۔
وہ کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ" لطیف سائین نے بتایا کہ عاشقوں کو محبوب کی طرف جاتے وقت آنکھوں(پلکوں) کے بل چلنا چاہئے،سندھ وادی کی چوٹیوں، ٹیلوں اور گھاٹیوں کی سیر Transcendental experiencing اور آنکھوں کو پاوں کرنے کا عمل ہے، شہروں اور لوگوں تک رسائی کے بہت سے راستے ہیں لیکن سندھ تک رسائی کا راستہ صرف ایک ہے(یعنی ماورائے تعقل)"۔سندھ وادی کو سامراج کی نہیں مقامی کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے،مقامیت(یہاں مصنف نے مقامیت کی تعریف نہیں بتائی) آنکھوں کو وہ بصیرت عطا کرتی ہے کہ آپ چیزوں کو ان کے درست تناظر میں دیکھنے لگتے ہیں اور پچھتر سال کے پاکستانی کی عمر پانچ ہزار سال ہو جاتی ہے"، یعنی ہمارے ممدوح سندھ کی ازلیت، عظمت اور ابدیت کے لئے پہلے حواس سے مارواء خیر کلی جیسا لافانی عقیدہ قائم کرتے ہیں اور پھر اس عقیدے کو حتمی صداقت ثابت کرنے کے لئے سندھ کی مقامی دانش، فلسفہ اور تصوف کی Myth کو عقلی انداز میں تاریخ کے جدلیاتی ارتقاء سے ہم آہنگ بنانے کی جسارت کرتے ہیں، یہ بجائے خود ایک ایسا سری فلفسہ ہے جو مقامی ثقافت،رقص و سرود ،شعر و سخن اور فلسفہ و مذہب کے درمیان ربط پیدا کرکے اُسے دھرتی سے منسوب کرنے کا نظریہ بن جاتا ہے , ممکن ہے مجھ جیسے تشکیک پسندوں کو اُن کے اِس فکری تال میل سے اتفاق نہ ہو لیکن مصنف نے انتہائی نفاست کے ساتھ مقامیت کو حسن ، خیر اور صداقت کا وجود متصور کرکے دھرتی سے لازوال محبت کی کتھا لکھ ڈالی۔
یہ بھی پڑھیں :قاضی بچ گیا ،مولانا پی ٹی آئی سے ہاتھ کرگئے
سندھیوں میں گھر کی یاد کا مرض اور زندگی کی تلخیوں کو بھلانے کی خاطر ماضی کی پُروقار یادوں میں جینے کے روگ کی جڑیں کافی گہری ہیں، اس لئے وہ عزیمت کی راہ ترک کرکے ماضی کے مظلوم کرداروں کی پرستش اور زندگی کی کشمکش سے گریزاں صوفیوں اور راہبوں کی قنوطیت آمیز شاعری میں عظمت تلاش کرتے ہیں ۔ سندھ میں یہ نظریہ صرف تصوف اور سماجی نفسیات کا ہی حصہ نہیں بلکہ سیاست کا جوہر بھی یہی ہے،ماروی کے افسانوی کردار کی طرح سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید نے بھی نذیر لغاری کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ” میں سندھیوں پہ لعنت بھیجتا ہوں ، وہ مزاحمت کے جذبہ سے عاری ہیں، میں تو فقط سندھ دھرتی کی بات کرتا ہوں“۔ علی ہذالقیاس ، مصنف اپنے ذہنی سفر کی ابتداء سمبارا کی داستان سے کرتے ہیں ، اس کتاب میں شاہ لطیف کے”رسالو“ اور ”ماروی“ کی دھرتی سے لازوال محبت کی طرح سمبارا کا مجسمہ بھی اُس ناقابل فہم قنوطیت کا مظہر ہے ، جس میں مصنف نے رفعت عباس کے ناول ” نمک کے جیون گھر“ میں لکھے اس جملے ” جیون جو داڑو کے فلسفہ میں مذہب، جنگ اور موت نہیں ہے ، سے اتفاق کرتے ہوئے فی الحقیقت سندھی تہذیب کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، اسی چیپٹر کا اختتام وہ نصراللہ خان ناصر کی کتاب، یہ کیسا دکھ ہے، کی نظم ”سمبارا“ پہ کرتے ہیں، جس کا آخری ،شعر ہے کہ" بس شہر اموات کے بےکسوں پر ، میرا رقص ہی آخری معجزہ تھا “ یہ نظم دراصل سندھ کے غم پرستانہ مزاج کا عکس دیکھائی دیتی ہے۔ یہیں سے وہ سہیون کے دھمال کی مدہوش کن دھنوں کی طرف پلٹ جاتے ہیں، جہاں ایک طویل مگر پیچید بحث کے بعد عثمان مروندی عرف شہباز قلند کی فارسی غزل کا آخری شعر "....
"منم عثمان ہارونی کہ یار شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم "
کا حوالہ دیکر اسے سمبارا کے کبریائی رقص کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں , اس کے بعد مصنف نے" فتنہ تاتار اور خراسانی صوفیا" کی فصل میں فلسفہ وحدت الوجود کی تصریح فرماتے ہوئے لکھا " وجود کی وحدت کا فلسفہ پارہ پارہ وجود کو جمع کرنے کی سعی کا مظہر ہے، تب صوفی نے کہا کہ موت فانی وجود کو وجودِ مطلق سے ملانے کی ایجنسی ہے، یعنی موت سے وصال union ہوتی ہے، فلسفیانہ سطح پر یہ قدیم فلسفیانہ سوال ہے مگر مسلم فکر میں دو بڑے ہم عصر نابغوں ، شیخ اکبر ابن عربی اور مولانا جلاالدین رومی نے وحدت الوجودی فکر کو باقاعدہ فلسفے کی صورت میں پیش کیا "۔ اس کتاب میں سندھ دوست سومرا سلاطین،لال رنگ، اجرک اور وتایو فقیر کی ہسوڑ دانائی، جیسے عنوانات میں سندھ کی نسائی تہذیب کی جھلکیاں پیش کی گئیں ۔ آخر میں ، شاہ لطیف کے ”رسالو“ کی قنوطیت میں چھپے ، حکمت کے رازوں کو،دراوڑی،شیوتیا،آریائی ادوتیا اور نسائی حکمت ، بدھ شونیا کے خالی پن،ایرانی عرفی روشنی کی روایت،وشنوبھگتی،شیوگورکھ پنتھیوں، عرب اسلام،ابن عربی اور اسماعیلی ست پنتھیوں کے نظریات کی تصریحات سے منسوب کرکے انسان کی ازلی مغمومیت (مونجھ) اور عورت کی خود سپردگی جیسی فطرت کو صوفیا کے خود ملامتی فلسفہ سے جوڑنے کی سعی کی گئی ۔
یہ بھی پڑھیں : ایس سی او: پاکستان کی سفارتی محاذ پر بڑی کامیابی
کتاب میں سندھ کی اجتماعی زندگی اور ماضی کی گداز تہذیب سے مماثلت کو زندگی کی آگ میں جلنے والے صوفیوں،بھگتوں،پنتھوں اور فرقتِ وطن کے آشوب میں مبتلا مقامیت پسندوں کی نفسیات کے محور تک محدود رکھا گیا مگر اس کتاب میں غم روزگار کے لئے ٹوٹ مرنے والے محنت کشوں،ہاریوں اور اُن زندہ دل تاجروں کی اقتصادی سرگرانی کا ذکر مفقود ہے جو تہذیب کو وسائل اور معاشرے کو سامانِ تعش مہیا کرتے ہیں ۔ یہاں ہمیں ہنہناتے گھوڑوں اور چکمتی تلواروں کی جھنکار میں موت کو محبوبہ سمجھنے والے بہادر شہسواروں اور سورماوں کی دھرتی کی خاطر لازوال قربانیوں کا ذکر نہیں ملتا ، اسی طرح اجتماعی حیات کو مربوط بنانے والے حداد ،بَڑھیا،کمہار،موسیقار اور سنگ تراش جیسے عظیم فنکاروں کی شراکت کو بھی نظر انداز کیا گیا،جنہوں نے موہنجوداڑو کی گداز تہذیب کو شکل و صورت عطا کی تھی ۔ تہذیب اجتماعی زندگی کا وہ ہمہ گیر دھارا ہے،جس میں عورت کی افزائش نسل کی تخلیقی صلاحیت سے لیکر کاشتکاروں کی زرخیزی، اہل حرفت کی صنعائی،فنکار کا تخیل ،صداقت کے متلاشی طلبہ کی جستجو،جاں بازوں کی شجاعت اور بادشاہوں کی سخاوت جو مربوط اور ہم آہنگ دھارا پیداکرتی ہے، اسی کے تال میل میں انسان کا ذوق سلیم حسن و عشق کی رنگین داستانیں، شعراء کی لن ترانیاں،نظام اخلاق، فلسفہ خیر و شر کی حرکیات اور زندگی کی تقہیم و آرائش کے دبستان تخلیق کرتا ہے ۔
تہذیب جن سات عناصر پہ مشتمل ہے اس میں پہلی، مستحکم خوراک کی فراہمی ،نظام حکومت ، انتہائی ترقی یافتہ ثقافت ، تحریری زبان، سماجی ڈھانچہ ، مذہبی نظام اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا رجحان شامل ہیں ۔ وادی سندھ کی تہذیب، جو دنیا کی قدیم ترین ثقافتوں میں سے ایک ہے، 3300-1750 قبل مسیح میں پروان چڑھی، جس نے جسامت اور نفاست میں مصر اور میسوپوٹیمیا کی تہذیبوں کا مقابلہ کیا ۔ لکیرڈ لکڑی کے کام جسے جندری کہا جاتا ہے، لکڑی پر پینٹنگ، ٹائلیں اور کاشی کاری کے نام سے مشہور مٹی کے برتن، ہاتھ سے بنے ہوئے کپڑے بشمول کھادی، سوسی ، اجرک اور ہالہ کی دستکاری سندھی ثقافت کی نمایاں صنعتیں ہیں ۔ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پہ محیط سندھو تہذیب کا تذکرہ مہاکاوی ، مہابھارت اور ہریوامسا پران میں سوویرا بادشاہی کے ساتھ کیا گیا، جس میں اِن کا پہلا بادشاہ رانا دتیہ ستیہ 489-524 بی سی اور آخری میر ناصر خان تالپور 1840-1843 اے ڈی تھا ۔
یہ بھی پڑھیں : نواز شریف کی سیاست تباہ دے ، آئینی ترمیم تو وڑ گئی
سندھی کتابوں میں جن پانچ تاریخی ہیروز کا تذکرہ ملتا ہے ان میں راجہ داہر ، دودو سومرو، دریا خان، مخدوم بلاول اور شاہ عنایت شامل ہیں ۔ خطہ کی لوک داستانوں میں جھولے لال ہندووں کا محافظ دیوتا تھا جس کی ثناء میں گیت لکھے، مجسمے سجائے اور تہوار منائے جاتے ہیں ۔ کئی صدیوں تک جھولے لال نے سندھیوں کو متحد رکھا،جھولے لال کے تئیں عقیدت تقسیم سے پہلے یکساں تھی تاہم بعد ازان سندھی مسلمانوں نے اپنے تحفظ کو شہباز قلند سے منسوب کرکے سماجی تفریق پیدا کر لی, اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سندھی تہذیب کو تصوف کی لذت خیال نے جمود کا شکار بنا کر وقت کی دبیز تہہ میں دفن کر دیا، کیونکہ تصوف حرارت کے نشتر کو کند کرکے انسان کو بغاوت اور الوالعزمی کے جذبات سے محروم کر دیتا ہے،جس کے طلسماتی مقاصد میں آنکھیں میچ کے سہمے سہمے اتباع کرنا شرطِ اولین ہے،تصوف انسان کی تخلیقی صلاحیتوں اور تسخیر کرنے کی قوتوں کو اپنے وجود کے اندر جلا ڈالنے کی مشق کا نام ہے ۔ مولانا رومی کے وظائف ذہنی کی تکرار کرنے والے اقبالؒ نے جب زندگی کی قوتوں سے سر شار فریڈرک نطشے کو پڑھا تو اسے بھی اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی ۔
" در دہشت جنونِِ من جبریل زبوں صیدے
یزدان با کمند آور اے ہمتِ مردانہ"
نطشے کے ذہنی مرید اقبالؒ نے صوفیوں کو مشورہ دیا تھا کہ
"نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری"
"سندھ گُلال" میں مصنف نے نسائی تصوف اور سندھی عورت کی مٹی کی محبت میں گندھی جو شبیہ بنائی وہ نسوانیت کے فطری اصولوں سے میل نہیں کھاتی کیونکہ عورت کائناتی،اجتماعی، جنگی اور اقتصادی انقلابات جیسے غیر شخصی عوامل کو کبریائی قوتوں سے منسوب کرتی ہے یعنی عورت مرد میں حسن نہیں بلکہ ایسی طاقت اور قابلیت ڈھونڈتی ہے جو اسکی پناہ کی ضامن ہو لیکن مرد اپنے آخری انتخاب میں حسن کو اہمیت دیتا ہے۔