بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت مولانا فضل الرحمان کی ہے:بلاول بھٹو

Oct 21, 2024 | 00:28:AM
 بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت مولانا فضل الرحمان کی ہے:بلاول بھٹو
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24 نیوز
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ آئینی ترمیمی بل کی منظوری میں مولانافضل الرحمان نے سب سے زیادہ محنت کی ہے،سیاست میں اپنے والد صدر آصف زرداری کے بعد اگر کسی کو بڑا مانتا ہوں تو وہ سربراہ جے یو آئی ہیں۔ 

قومی اسمبلی اجلاس می بلاول بھٹو زرداری نےاظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون کے جو الفاظ ہیں ان کا شکر گزار ہوں،بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے،جتنا ہمارا آپس میں تبادلہ خیال ہوا اس پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست میں اپنے والد صدر آصف زرداری کے بعد اگر کسی کو بڑا مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔ 

 بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میرے لیے اگر میں قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ پاکستان کا آئین ہے، ہم نے18ویں ترمیم کے وقت اس دور کے حالات کے مطابق کام کیا،آج کے دور کا اپنا سیاسی  سپیس ہے،سیاسی جماعتوں کےلیے آج جتنا  سپیس ہے اتناماضی میں نہیں رہا،جتنا اتفاق رائے پیدا ہوسکتا تھا اُتنا حاصل کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین کے وقت جے یو آئی ان بینچوں پر بیٹھی تھی اور پیپلز پارٹی ان بینچوں پر بیٹھی تھی،جب پاکستان کی بات آتی تھی تو سارے اختلاف بھول کر ایک میز پر بیٹھ کر آئین دلوایا تھا،ہمارے آئین میں تمام کالے قوانین کو ہم نے اپنے آئین سے نکلوا دیا،سیاست دان کا امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ جتناسپیس ملتا ہے اس سپیس پر کتنا کھیل سکتے ہو ،تاثر دیا جاتا ہے سیاست دان ہاتھ تک ملانے کا نہیں تیار،جتنا اتفاق رائے پیدا ہو سکتا تھا وہ ہم نے حاصل کرکے 26 ویں ترمیم کی شکل میں پاس کرنے جارہے ہیں۔ 

 پاکستان کے عوام کے لیے سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہم کتنا بڑا کام کرنے جا رہے ہیں،پاکستان کے عوام سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ پاکستان کیے نظام عدل سے مطمئن ہیں یا نہیں،پاکستان کے عوام کیا یہ چاہتے ہیں کہ جیسے عدالت کا نظام چلتا آ رہا ہے ویسا ہی چلے؟ہماری عدالت کام تھا جمہوریت کا تحفظ آئین کا تحفظ کرنا،ہماری عدالت کا کام تھا آمر کو روکنا،کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے،عدالت نے یہ ذمہ داری کب پوری کی؟ہمارے اپوزیشن کے دوست کالا سانپ کالا سانپ کی بات کر رہے ہیں،ان کی نظر میں اس آئینی ترمیم میں کوئی ایسی شق تھی جسے نکالا گیا،کالا سانپ افتخار چودھری والی عدالت ہے،جنرل مشرف نے وردی میں الیکشن لڑا تو اجازات عدالت نے دی،ججز آئین اور جمہوریت کو تحفظ دینے کے لیے اپنا اختیار استعمال نہیں کرتے،ہم نے 58 ٹو بی نکالی تو عدلہہ نے اس کا اختیار اپنے پاس لے لیا،ہم آمر کو بھگاتے ہیں تو عدلیہ کو جمہوریت اور آئین یادآجاتا ہے،عدلیہ اپنا اختیار وزرائے اعظم کو فارغ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

  ہم نے 58 ٹو بی نکالی تو عدلیہ نے اس کا اختیار اپنے پاس لے لیا،ہم آمر کو بھگاتے ہیں تو عدلیہ کو جمہوریت اور آئین یادآجاتا ہے،عدلیہ اپنا اختیار وزرائے اعظم کو فارغ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے،قائداعظم نے گول میز کانفرنس میں آئینی عدالت کی تجویز دی،قائداعظم کو ملک کو آئین دینے کا موقع نہیں ملا،قائداعظم نے آئینی عدالت کی سوچ رکھی،آمریت کی کامیابی میں صف اول کا کردار عدالت کارہا ہے، چیف جسٹس کی عدالت نے جو انصاف دلوایا وہ جسٹس دراب پٹیل نے اپنے آرڈر میں لکھا تھا،جسٹس دراب پٹیل کو چیف جسٹس بننا تھا اس کے درمیان پی سی او جج تھے،جسٹس دراب پٹیل  کے لیے کرسی کی اہمیت ہوتی تو پی سی او جج بنتے،جسٹس دراب پٹیل  نے چیف جسٹس کی کرسی کو لات مار کر استعفی دے دیا، میں پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں آئینی عدالت بنانے کا وعدہ2024 میں بھی آئینی عدالت میرے منشور کا حصہ ہے،سیاست میں ضد نہیں ہوتی اگر ہم اپنی ضد پر قائم رہیں تو کامیابی مشکل ہوگی،جمہوریت کے چمپئن افتخار چودھری نے کہا کہ 18 ویں ترمیم باہر پھنک دوں گا،ہم آئینی بینچ بنانے جارہے ہیں،جب سینیٹ بنائی تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ پارلیمان پر پارلیمان بنا رہے ہو،وہ کام پارلیمان میں کیا وہ عدالت میں کرنے جارہے ہیں،یہ سمجھتے ہیں یہ پاور ہم ان سے چھین رہے ہیں،یہ پاور انہوں نے ہم سے چھینا،افتخار چودھری کی دھمکی میں آکر 18 ویں ترمیم کی گئی،یہ عدالت کالا سانپ بن کر 18 ویں ترمیم کے گرد گھوم رہی تھی،آئینی عدالت ہو یا آئینی بنچ عوام کا کام ہونے جارہا ہے،وفاقی عدالت کو تمام صوبون میں برابر کی نمائندگی دے رہے ہیں۔

 چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت ہو یا آئینی بنچ عوام کا کام ہونے جارہا ہے،وفاقی عدالت کو تمام صوبوں میں برابر کی نمائندگی دے رہے ہیں،دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ جج جج کو لگائے ، اور جج جج کو ہٹائے، کہتے ہیں سیاست دان کون ہوتا ہے ، ہم منتخب نمائندے ہیں،یہ سمجھتے ہیں ہم نے انکا اختیار چھینا یہ ہم سے اختیار چھین رہے ہیں،جج لگانے کا اختیار وزیراعظم سے چھین کر چیف جسٹس کو دیا گیا،خوف تھا خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو جج تعینات کرے گی تو نظام تباہ ہوجائے گا۔ 

 یہ بھی پڑھیں:  آئینی ترمیم کی منظوری کا معاملہ،قومی اسمبلی کا اجلاس جاری