نیا نیا میٹرک کیا 80ء کی دہائی تھی اپنے گاؤں میں چند روز گزارنے کا پروگرام بنا تو پاکپتن شریف روانہ ہوگیا، ہمارے گاؤں تک کوئی سواری نہیں جاتی تھی سو میرے تایا جو گاؤں کے چودھری / نمبردار تھے ایسے مواقعوں کے لیے اپنا تانگہ بجھوایا کرتے تھے اُن تک اطلاع پہنچانے کا انتظام بھی آپ کو سفر کرنے سے ایک ہفتہ پہلے کرنا پڑتا تھا،پاکپتن غلہ منڈی میں آڑھتی (مڈل مین ) کی دکان پر ٹیلی فون کیا جاتا اگر تایا شہر کسی کام سے آتے تو میسیج وصول کرتے ٹیلی فون کرلیتے اور یوں دن تاریخ وقت طے ہوتا کہ کون سی ٹرین سے کتنے بجے پہنچیں گے، پاکپتن میں ہمارا پہلا پڑاؤ منڈی کے پاس اشرف سائیکلوں والا کی دکان پر ہوتا یہ سائیکل مرمت ،پنکچر کی دکان تھی یہاں تانگہ پہنچتا کبھی وقت پر اور کبھی کچھ تاخیر سے ۔
اس دکان پر لگا ایک پرانا کیلنڈر آج بھی میرے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں محفوظ ہے بمعہ اُن تصاویر کے جو اس پر بنی تھیں ان تصویروں میں زمینی پلیٹوں کو سمندر میں ڈوبنے کی عکاسی کی گئی تھی اور ایک پلیٹ پر بڑی بلند و بالا عمارتیں بھی بنی ہوئی تھیں ، ان تصویروں کے نیچے ایک تحریر تھی جس میں لکھا تھا کہ قدرت امریکہ سے اُس کے مظالم کا حساب لینے والی ہے اب وہ دن دور نہیں جب سارا امریکا نیست و نابود ہوجائیگا ،افغانستان میں ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث امریکہ ڈوب جائے گا ، اس کے بعد اگلے پیراگراف میں کسی غیر ملکی جریدے کے حوالے سے کسی ماہر ارضیات کا بیان تھا جس کے مطابق انٹا رٹیکا بر اعظم کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے اور یہ برف 2000 کے آتے آتے اس قدر پگھل جائے گی کہ امریکی ساحلی شہر سطح سمندر سے 30/40 فٹ نیچے چلے جائیں گے اور یوں امریکہ ڈوب جائے گا ، اسے افغاستان میں ڈھائے اپنے مظالم کا بدلا اس دنیا میں ہی مل جائے گا آخر میں " امریکہ تباہ دے " کا جملہ اور پھر واضع طور اُس اسلامک آرگنائزیشن کا نام لکھا تھا جس نے یہ کیلنڈر چھپوایا تھا ۔
آج اس واقعے کے کم و بیش 38 سال بعد وٹس ایپ گروپ میں میرے ایک مربی اقرار بھائی نے ایک کلپ بجھوایا جس میں ایک بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے ایک صاحب زور و شور سے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ " بلآخر وہ خبر آگئی جس کا مسلمان بے صبری سے انتظار کررہے تھے، 2024 امریکہ کے سُپر پاور ہونے کا آخری سال ہے اس کے بعد امریکا میں وہ سکت ہی باقی نا رہے گی کہ وہ اُس ظلم و ستم کا بازار جو اُس نے افغانستان ، عراق ، لیبیا اور اب فلسطین میں روا رکھا ہوا ہے جاری رکھ سکے " اپنی بات کی تصدیق لیے وہ کچھ اعدادوشمار بھی لائے ، جس کے مطابق امریکا نے اس وقت 34 کھرب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے جو کہ اُس کی کُل پیدوار کا 130 ٪ بنتا ہے اس قرض میں اس تین ماہ تک مزید ایک کھرب کا اضافہ ہوکر یہ رقم 35 کھرب ڈالر ہوجائے گی جس پر اس سال کے آخر تک 1.4 کھرب سود دینا ہے جو امریکا کے لیے دینا ممکن نہیں اس کے بعد مزید خوشخبری سناتے ہیں کہ امریکا کے لوگوں نے کریڈٹ کارڈ سے جو چیزیں اور گھر لیے ہیں اُس رقم کی واپسی کے قابل نہیں ہیں اس لیے شہری ڈیقالٹ ہوں گے ، بنکوں کو قرض نہیں ملتا تو بینک بھی ڈیفالٹ ہوجائیں گے ۔
ضرورپڑھیں:جماعت اسلامی ! نا انقلابی نا انتخابی(پہلا حصہ)
یہ کلپ سنا تو پاکپتن والا کیلنڈر یاد آگیا تب سے آج تک ہم امریکا جیسی سُپر پاور بننے کا خواب دیکھنے کے بجائے اُس کے تباہ ہونے کے خواہشمند ہیں دنیا کی 8 ارب کی آبادی میں ہم تقریباً 2 ارب مسلمان ہیں اور یہ ڈھیر سارے مسلمان دنیا کی آدھی سے ذیادہ دولت کے مالک ہیں لیکن بڑی بڑی مشینری اور آلات تو دور کی بات یہ سب ملکر ایک میکڈونلڈ جیسا برگر ، ایک کوک ، ایک پیپسی ، ایک اچھا صابن ،ایک کے ایف سی جیسا فرائیڈ چکن ، ریزر ، چاکلیٹ تک تو بنا نہیں سکے ،ہاں بنایا ہے تو وہ چالیس سال پرانا کیلنڈر ، اور ایسے ٹک ٹاک کے محققق جنہیں امریکی کمپنیوں کی ہی بنائی گئی سوشل میڈیا ایپ وٹس ایپ کے ذریعے گھر گھر بجھوایا جارہا ہے اور بچوں کو ذہنی طور پر پسماندہ بنا کر صرف ایسی باتوں میں الجھایا جارہا ہے کہ تم کچھ نا کرو اللہ کی مدد آیا ہی پہنچتی ہے جبکہ قرآن پاک میں اللہ پاک واضح الفاظ میں فرماتے ہیں ۔قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے کہ’’ اے اہل ایمان اپنے تحفظ کا سامان (اور اپنے ہتھیار) سنبھالو اور (جہاد کے لیے) نکلو خواہ ٹکڑیوں کی صورت میں خواہ فوج کی شکل میں‘‘ ۔ (سورةالنساٴ؛4:71)
ذرا جنگ بدر کا تو مطالعہ کریں جس میں فرشتوں کی نصرت اُ ن کے لیے آئی جنہوں نے اللہ کی راہ میں نکلنے کا قصد بصورت جہاد کیا ناکہ صرف بددعاؤں اور توکل اللہ کے نام پر گھر بیٹھ کر اللہ کی مدد کو پکارا علامہ محمد اقبالؒ ے اس مضمون کو خوبصورت پیرائے میں پرویا اور لکھا؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اب ذرا امریکی قرض کا بھی جائزہ لے لیں جو اُس نے ڈالر میں لیا اور ڈالر میں ہی واپس کرنا جو اُس کے اپنے بینکوں کی کرنسی ہے ، امریکہ نے جن پانچ ممالک کا سب سے ذیادہ قرض ادا کرنا ہے اُن میں جاپان 1.1 ٹریلین ڈالر، چین 859 بلین ڈالر، برطانیہ 668 بلین ڈالر، بیلجیئم 331 بلین ڈالر اور لکسمبرگ 318 بلین ڈالر کے ساتھ شامل ہیں لیکن یہ قرض زر ضمانت کے ٹریثرری بانڈز کی صورت میں ہے ،دلچسپ امر یہ ہے کہ ان ممالک کازیادہ تر سرمایہ بھی امریکی مارکیٹ میں کھپت شدہ ہے اسی لیے تو دورہ چین کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک سوال پر برملا کہا تھا کہ چینیوں کا امریکی مارکیٹ میں لگا سرمایا محفوظ ہے اور امریکہ کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوگا ۔
امریکی قرض اور سود امریکہ کے لیے ایک بڑا بوجھ ضرور ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ دنیا بھر کی نظریں امریکا کے ڈیفالٹ ہونے پر لگی ہوں اس سے قبل بھی بارہا مواقع پر ایسی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن گلوبل ویلیج کے اس بدمعاش کے گھر لگے سارے شیشے انہیں گاؤں والوں کے ہیں جن کے پیسے پھنسے ہیں اس لیے شیشے کے گھر میں بیٹھے امریکی بے فکر ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی پہلا پتھر نہیں پھینکے گا سب کو اپنا سرمایا اور اپنی جان سب سےزیادہ عزیز ہے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر