سائفر کیس، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں منظور
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز ) سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں گرفتار سابق وزیر اعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف اور ان کے دیرینہ ساتھی شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی 10،10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کر لی، سردار طارق مسعود کے ہمراہ جسٹص منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ میں شامل تھے ۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفرکے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا وزارت خارجہ سائفر کا حکومت کو بتاتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے جبکہ جسٹس منصور نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہےکہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں، سفارتی معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہو سکتیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں، سابق وزیراعظم کے خلاف سزائے موت یا عمرقید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔
قائم مقام چیف جسٹس پاکستان نے کہا سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ائیر تو کیا ہی گیا ہے،سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکرٹری موصول ہوا تھا، جس میٹنگ میں سائفر سازش منصوبہ بندی کا الزام ہے وہ 28 مارچ 2022 کو ہوئی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ27 مارچ 2022 کو ہوا تھا،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے، وہ باہر گیا ہے تو یہ دفترخارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا شاہ محمود قریشی نے تقریرمیں کہا وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے، حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں ، پی ٹی آئی کے وکیل نے سپریم کورٹ میں پریڈ گراونڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر بھی پڑھ کر سنائی،قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا وزیر خارجہ خود سمجھدار تھا، سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے کہا کہ بتا نہیں سکتا اور بانی پی ٹی آئی کو پھنسا دیا، وزیر خارجہ نے بانی پی ٹی آئی کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور وہ جانیں، شاہ محمود خود بچ گئے اور بانی پی ٹی آئی کوکہا کہ سائفر پڑھ دو۔
سلمان صفدر نے کہا بانی پی ٹی آئی نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا، اگر سائفر پبلک ہو ہی چکا ہے تو پھر سائفر ٹرائل ان کیمرا کیوں چاہیے پراسیکیوشن کو؟ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے؟ سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا ہے، عدالت نے 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا پاک امریکا تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا، اس کی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پربھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا سائفر سے انڈیا سمیت دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی، عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت فوجداری مقدمے کو نہیں دیکھ سکتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ضابطہ فوجداری کی بنیاد پربنیادی حقوق نا دیکھ سکے؟
وکیل شاہ خاور نے کہا عدالت کا اختیار ہے کہ بنیادی حقوق دیکھے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھاکہ کسی دوسرے ملک کو فائدہ پہنچا ہے، عدالت سائفرپبلک کرنے کو درست قرارنہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں، ابھی تک کسی گواہ کے بیان سے ثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیرملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ایک طرف آپ کہتے ہیں مقدمہ ان کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہوگئے ہیں، جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کل بلوچ فیملیزکیساتھ جو ہوا اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہوگا؟ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی کا کہنا تھا دوطرفہ تعلقات متاثرہونے سے دشمن کو فائدہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں : علامہ اقبال سے منسوب اشیا ءکا میوزیم بنانے کا فیصلہ
کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ آپ سائفر کیس کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے، حقیقی معنوں میں آج سائفر کیس صفر ہو چکا ہے اور کیس کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر عدالت کے سوالات کے جوابات دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے، آج سرکار ثابت نہیں کر سکی کہ یہ سزائے موت کا کیس ہے۔