آپ نے بشریٰ بی بی کا ویڈیو بیان دیکھا ہی ہوگا کل سے اس بیان کو لیکر مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومتی زر خرید تجزیہ کار( وہی جنہیں پی ٹی وی سے 10، 10 لاکھ کی نوکریوں کی خیرات حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کی طرح بانٹی گئی ہے) شور مچائے ہوئے ہیں کہ دوست ملک ،دوست ملک ،دوست ملک،یہ بشریٰ بی نے کیا کہہ دیا؟ یہ بشریٰ بی بی نے دوست ملک کے خلاف کیسے بات کردی، اس سے تو پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں ،اُس دوست ملک کے ساتھ جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا، اُس ملک کے ساتھ جس نے دنیا بھر کے بائیکاٹ کی دھمکیوں پر بھی پاکستان کو ایٹمی دھماکہ کرنے پر نا صرف ابھارا بلکہ مالی امداد بھی کی اور تو اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ "بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے ویڈیو بیان میں سعودی عرب سے متعلق گفتگو پر وزارت خارجہ کا رد عمل سامنے آگیا۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب قریبی دوست اور بھائی ہیں، پاکستانی عوام کو سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات پر فخر ہے، سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ نائب وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سعودی عرب کی ترقی اور خوشحالی کے سفر کی بے حد تعریف کرتے ہیں، معمولی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے سعودی عرب کو ملوث کرنا افسوسناک ہے یہ باتیں انکی مایوس کن ذہنیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم تمام سیاسی قوتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سمجھوتہ کرنے سے باز رہیں"۔
اس ویڈیو بیان میں جو بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کے نام سے جاری ہوا، اُس کی اگر بطور میڈیا پرسن میں تجزیہ کروں تو مجھے یہ بیان بشریٰ بی بی کا محسوس نہیں ہورہا (بلکہ موکلئین کی شرارت لگتی ہے کہ کوئی پاکستانی باقائمی ہوش و حواس ایسا بیان نہیں دے سکتا) پورے بیان کے دوران آنکھوں کو جس تیزی سے جھپکا جارہا ہے، وہ ایک عام انسان کے آنکھوں کے جھپکنے سے تین گنا زیادہ ہے اور ایسی حالت انسان کی اُس وقت ہوتی ہے جب اُس پر جنات جیسی میٹا فزیکل مخلوقات جن میں موکلئین ، بد روحیں اور شیاطین بھی شامل ہیں کے زیر اثر ہوتا ہے لیکن سائنس اسے نہیں مانتی اس حوالے کی گئی جدید تحقیق اسے کسی اور رنگ میں دیکھتی ہے (واضح رہے کہ سائنس میٹا فزکس نہیں فزکس کا علم ہے وہ مافوق الفطرت عادات کو بھی ذہنی دباو اور شخصیت کے ڈس آرڈر کے طور پر لیتے ہیں ) اگر ہم سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو آنکھوں کے تیزی سے جھپکنے کے حوالے سے طبی اور نفسیاتی دونوں عوامل شامل ہو سکتے ہیں۔ طبی تحقیق کے مطابق، یہ علامت مختلف حالات جیسے اضطراب، دباؤ، یا دیگر نفسیاتی و اعصابی مسائل کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تیز جھپکنا عام طور پر ذہنی دباؤ یا سماجی اضطراب کے تحت ہوتا ہے، جبکہ بعض اوقات یہ کسی جسمانی بیماری یا آنکھوں کے تناؤ کا بھی اشارہ ہو سکتا ہے۔
ضرورپڑھیں:24 نومبر کو احتجاج کرنے والوں کے ساتھ وہ ہوگا جو نسلیں یاد رکھیں گی
جن کے زیر اثر انسان کی آنکھوں کے تیز جھپکنے کی باتوں کا کوئی سائنسی یا تحقیقی ثبوت موجود نہیں ہے۔ تاہم، یورپی اور ایشیائی مضامین کے مطابق، نفسیاتی دباؤ یا غیر معمولی جذباتی حالت میں آنکھوں کا زیادہ جھپکنا ایک فطری عمل ہے، جو فرد کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ عمل جھوٹ بولنے یا عدم اطمینان جیسے نفسیاتی مظاہر کے دوران بھی بڑھ سکتا ہے ، جی ہاں سائنس اس بات کو مانتی ہے کہ اگر انسان کوئی ایسا بیان دے جو جھوٹ پر مبنی ہو یا جس سے اُس کا اپنا مافی الضمیر مطمئین نا ہو تو وہ بات کرتے ہوئے آنکھوں کو تیزی سے جھپکتا ہے ۔
آنکھوں کے تیزی سے جھپکنے کے نفسیاتی یا طبی پہلوؤں پر تحقیق اور مضامین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ عمل زیادہ تر ذہنی دباؤ، اضطراب، یا اعصابی حالات کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ایماد ایلیان اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق "Decoding Eye Blink and Related EEG Activity in Realistic Working Environments" اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ آنکھوں کے جھپکنے کا تعلق نیورولوجیکل اور ذہنی بوجھ سے ہو سکتا ہے، خاص طور پر توجہ طلب کاموں کے دوران
۔ اسی طرح Neurolaunch کے مضمون "Excessive Blinking: Psychological Insights and Treatment Approaches" میں بیان کیا گیا ہے کہ تیز جھپکنا مختلف نفسیاتی مسائل، جیسے ٹک ڈس آرڈرز، یا دباؤ کے نتیجے میں ظاہر ہو سکتا ہے
یہ مضامین واضح کرتے ہیں کہ آنکھوں کا جھپکنا کسی شخص کی ذہنی اور جسمانی حالت کا عکس ہو سکتا ہے، اور یہ بھی کہ ان علامات کو سمجھنے کے لیے ماہرین نفسیات اور نیورولوجی کا تعاون ضروری ہے۔
اب آجائیں کہ سعودی عرب ہی کیوں ؟ تو اس کا جواب میرے اپنے موکلئین کے مطابق خانہ کعبہ والی جس جیراف گھڑی کو چوری کا مال سمجھ کر بیچا گیا تھا، اس کے خریدار نے اسے وہ دوبارہ سعودی شاہ کو ہی بیچنے کے لیے آفر کرادی جس سے یہ عقدہ کُھلا کہ تحفہ تو بیچ دیا گیا ہے ،سعودی حکومت کو صرف اس پر ہی نہیں اس بات پربھی ناراض ہوئی کہ اس کے ہیروں کے سیٹ جو تحفے میں دئیے تھے بنا اندراج برقعے میں چھپا لیے ، دیکھیں بات امریکہ سے شروع ہوئی ، محسن نقوی تک آئی اور اب سعودی حکومت تک پہنچ گئی ہے اس کے بعد تو بات آسمانوں کی جانب بھی جاسکتی ہے جہاں سے ہمارے اور ہمارے موکلئین کے بھی پر جلتے ہیں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر