آئینی اصلاحات اور سیاسی جمود 

اسلم اعوان

Sep 22, 2024 | 09:51:AM

مملکت خداداد پون صدی کے سیاسی جمود سے نکلنے کی خاطر نہایت محتاط انداز میں آئینی اصلاحات کی طرف پیشقدمی کر رہی ہے تاکہ اجتماعی زندگی کا دھارا کسی غیر معمولی حادثہ سے دو چار نہ ہو جائے، بظاہر مجوزہ آئینی ترامیم کا مقصد پارلیمنٹ کے حق حاکمیت کی بحالی کے علاوہ ایسی غیر مشروط جمہوریت کا حصول ہے جو ہزاروں برسر پیکار گروہوں کو مل کر جینے کا موقعہ فراہم کرتی ہے۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ہم نے آزاد مملکت کے حصول کے بعد کہنے اور سوچنے جیسی اُن بنیادی آزادیوں کو بھی کھو دیا جو چار ہزار سال کی پیچیدہ انسانی جدوجہد کا ماحاصل تھیں چنانچہ جب ہم پیچھے مڑ کر اِس قوم کی پُر آشوب تاریخ پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں آمریتوں کی تیرگی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ، اس نوزائیدہ مملکت میں مغربی قوتوں کے عالمی مقاصد کی تکمیل کی خاطر فوجی آمریتوں نے عدلیہ کے ذریعے قانونی جواز حاصل کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ کے کردار کو غیر موثر اور مقبول سیاسی قیادت کو ٹھکانے لگانا معمول بنا لیا تھا ، 1950 کی دہائی میں عدلیہ نے نظریہ ضرورت کی ڈاکٹرئین ایجاد کرکے ایک پھلتی پھولتی جمہوری ریاست کو لمبے عرصہ کے لئے استبداد کی تاریکیوں میں دھکیل دیا اور یہی پیش دستی بلآخر ملک کو دولخت کرنے کا وسیلہ بنی ۔

ملک ٹوٹنے کے بعد 1970 کی دہائی میں کچھ عرصہ تک جب عدلیہ اور مقتدرہ شدید ترین عوامی دباو میں تھیں تو اُس وقت تمام تر خامیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو اپنے حق حاکمیت اور سیاسی آزادیوں سے روشناس کرانے کے علاوہ ملک کو ایسا متفقہ آئین دیا جس نے آج بھی ریاست کو مربوط رکھا ہوا ہے تاہم چار سال بعد جولائی 1977 میں فوج نے پھر مارشل لاء نافذ کرکے آئین معطل کر دیا ، اس وقت کی سپریم کورٹ نے نہ صرف جنرل ضیاء الحق کی فوجی بغاوت کی توثیق کی بلکہ سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو ناکردہ گناہ کی پاداش میں موت کی سزا سُنا کر عدلیہ کی پوری تاریخ کو داغدار بنایا ۔ ابھی حال ہی میں بھٹو کیس بارے صدر کی طرف سے بھیجے گئے ایک ریفرنس پر فیصلہ دیتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے بھٹو کی سزائے موت کے فیصلہ کو خلاف قانون قرار دیکر علامتی طور پر تاریخی غلطی پہ ندامت کا فیصلہ دیا ۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اکتوبر 1999 میں نوازشریف حکومت کے خلاف جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کی توثیق کے علاوہ فوجی آمر کو اپنے سات نقاطی ایجنڈا کی تکمیل کے لئے تین سال تک حکومت کرنے سمیت آئین میں ترمیم کا حق دیکر ایک اور سنگ میل عبور کیا تھا اور اب تو وزیر اعظم کا عزل و نصب، پارلیمنٹیرین کا تحریک عدم اعتماد کا حق حتی کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ بھی ججز نے اپنے ہاتھ لے لیا، یہ دراصل آمریت  کا وہ تصور تھا جو ہمارے ذیشان ججز نے نظریہ ضرورت کی ڈاکٹرئین سے کشید کیا اور جس میں وہ خود ایک اداکار کے طور پہ شامل ہیں بلکہ اب تو اس شوق حکمرانی کو اپنے اندر بھی محسوس کرتے ہیں ۔ بلاشبہ ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بدنظمی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاست زندگی نہیں بلکہ نقش زندگی ہے اور زندگی کے مقاصد کے لئے یہ کافی ہوتا ہے کہ ہم اُن مشاہدات کو حقیقی سمجھیں جن کے متعلق مختلف لوگ ایک سی شہادت دیں ۔

ضرورپڑھیں:وزیراعلیٰ سندھ کے سابق مشیر گرفتار

 علی ہذالقیاس، اب وقت آن پہنچا ہے کہ پارلیمنٹ ماضی و حال کے ان عدالتی فیصلوں اور ان منصفوں کے کردار کا جائزہ لے جنہوں نے قوم کے اجتماعی شعور کی مظہر پارلیمنٹ سمیت ہر منتخب لیڈر کو بے لباس کرنا اپنا پیشہ بنا لیا تھا ۔ تازہ سیاسی سرگرمیوں کے پہلے مرحلہ میں اگرچہ حکومت ڈیفیکٹو اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمن کو ”آئینی پیکیج“ کی حمایت پر قائل کرنے میں ناکام رہی تاہم پُرامن اصلاحات کے اس پیکج کو حکمراں اتحاد کے علاوہ دانشوروں، وکلاء اور میڈیا کی وسیع تائید مل رہی ہے۔ اس وقت حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی موجودہ بندوبست کو ڈیل ریل کرنے کی خاطر پُرتشدد مزاحمتی تحریک میں الجھنے کے باعث اِس حوالہ سے پارلیمنٹ کے اندر کوئی تعمیری رول ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ، چنانچہ انکی پارلیمانی حکمت عملی کا انحصار جے یو آئی جیسے چھوٹے پارلیمانی گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی بصیرت کے ساتھ معلق ہو گیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کے بیانات اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق آئینی پیکج میں کم و بیش 52 تجاویز شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر پارلیمنٹ کے اختیار سے متعلق ہیں ، کچھ اہم تجاویز میں سے وکلاء تنظیموں کے دیرینہ مطالبہ پر سپریم کورٹ کے ساتھ ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل بھی شامل ہے، جو سیاسی تنازعات کے علاوہ آئینی شقوں کی تشریحات سے متعلق درخواستوں کو نمٹائے گی تاکہ سپریم کورٹ کی آہنی الماریوں میں برسوں سے پس اندوز پڑے 60 ہزار سے زیادہ مقدمات کو نمٹانے کی راہ نکالی جا سکے ۔ تجاویز میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت کریں گے، فی الحال سپریم کورٹ میں تقرریاں ایسے مہمل جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہیں،جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت تین سنئیر ججز کو حتمی اختیار حاصل ہے،اس میں عوام کی منتخب پارلیمانی کمیٹی کا کردار رسمی طور پر محض امیدواروں کے نام پیش کرنے تک محدود ہے ۔ایک اور اہم تجویز آئین کے آرٹیکل 63 اے پہ نظر ثانی ہے جسے مئی 2022 میں سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلہ کے ذریعے مسخ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کسی رکن قومی اسمبلی کا پارٹی سربراہ کے مرضی کے خلاف کاسٹ کیا گیا ووٹ سرے سے شمار نہیں کیا جائے گا،جس سے تحریک اعتماد سے متعلق کئی آئینی شقیں غیر موثر ہو گئیں چنانچہ یہ ترمیم پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے دوران قانون سازوں کے بحیثیت رکن پارلیمنٹ ،شعور پہ عائد عدالتی قدغن کو ہٹانا کے لئے تجویز کی گئی ۔ آئینی ترامیم کے لئے حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت پڑے گی ۔ قومی اسمبلی کی 336 نشستوں کے علاوہ سینیٹ کی 96 نشستیں میں سے حکومت کو آئینی پیکج منظور کرانے کے لیے قومی اسمبلی میں کم از کم 224 اور سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہوں گے لیکن نواز لیگ کی قیادت میں مخلوط حکومت قومی اسمبلی میں صرف 214 ووٹوں کے ساتھ 8 آزاد اراکین کی حمایت کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کے آٹھ ووٹوں پہ اکتفا کئے بیٹھے ہے ۔اسی طرح سینیٹ میں 57 ووٹوں کی حامل گورنمنٹ جے یو آئی کے پانچ ووٹوں کو مینج کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے لیکن حکومتی اتحاد سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے ترامیم کو منظور کرنے کے لیے درکار ووٹ حاصل کرنے میں حکومتی ناکامی کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم کو پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کرنے میں مزید ایک ہفتہ یا 10 دن لگ سکتے ہیں تاہم حکومت کو درکار ووٹوں کے حصول میں کوئی مشکل درپیش نہیں ۔ پی ٹی آئی آئینی ترامیم کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع سے جوڑ کر عدالتی مقتدرہ کے اندر پائی جانے والی دراڑ کو بڑھانے میں مفاد تلاش کر رہی ہے بلکہ عدالتی نظام کی مین بینافشری ہونے کے ناطے تحریک انصاف کے کارکن نہایت بے حجابی کے ساتھ اُن آزاد ججز کی ٹرولنگ میں مصروف ہیں جو اس کے سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے میں سہولت کاری سے گریزاں ہیں ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت پی ٹی آئی ان تمام آئینی تبدیلیوں کے پیچھے عمران خان کے کیس کو فوجی عدالت میں بھیجنے اور پی ٹی آئی پہ پابندی لگانے کی سکیم کے حصہ کے طور پہ دیکھتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ، پی ٹی آئی کی دلیل اس الزام پر ابلتی ہے کہ حکومت، ججوں کو آئینی معاملات کے فیصلوں کے ساتھ بااختیار نئی عدالت میں بھیج کر بشمول سیاسی جماعتوں کی قسمت پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات کے لیے عدالتی حمایت کے امکانات کو زیادہ مضبوط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

عمران خان پچھلے سال اگست میں کرپشن و بدعنوانی سمیت کارکنوں کو ریاستی اداروں کے خلاف جارحیت پہ اکسانے جیسے الزامات میں جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں، جس میں پچھلے سال 9 مئی میں فسادات بھڑکانا بھی شامل ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تشدد بھڑک اٹھا اور پی ٹی آئی کارکنوں نے فوجی تنصیبات پر مہلک حملے کئے تھے ۔ مزید برآں، حکومت کی طرف سے حالیہ اشارہ کہ خان پر اب فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے،نے مغربی طاقتوں کو بھی اِس اکھاڑے میں اتار دیا ، جس کے بعد یوروپی سفارت کاروں سمیت عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے عمران خان کی رہائی کے لئے دباو بڑھ گیا، امریکہ نے پاکستان میں بیلسٹک میزائلوں کو اپ گریڈ کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر ایک پاکستانی کمپنی سمیت متعدد چینی کمپنیوں پر پابندیوں کے نئے دور کا اعلان کر دیا ،اسی طرح چند دن قبل لندن میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی جانب سے فنڈ ریلیز کرنے میں تاخیری حربوں کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے اسے پاکستان کی اندرونی معاملات پہ اثرانداز ہونے کی کوشش قرار دیا ۔ اس ماہ کے شروع میں، پی ٹی آئی کے وکلاء نے خان کے کیس کو فوجی عدالت میں ٹرائل کے لیے بھیجنے کے ممکنہ قدم کو روکنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشگی درخواست دائر کر دی لیکن قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ قانون بھی فوج کو اجازت دیتا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں کسی سویلین کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل کےلئے مانگ سکے ۔کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم، اگر منظور ہو جاتی ہیں، تو طویل عرصہ بعد پارلیمنٹ خود کو ”عدلیہ“کے پنجوں سے آزاد کرا کے اپنا ساورن کردار واپس لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے ۔

نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں:ایڈیٹر 

مزیدخبریں