یہ کہنا درست نہیں کہ شوکت صدیقی کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا،جسٹس عرفان سعادت
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز ) سابق جج لاہور ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عرفان سعادت نے وکیل حامد خان کے دلائل کے جواب میں کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ شوکت صدیقی کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا ، 2ماہ تک شوکت عزیز صدیقی کا کیس چلتا رہا،شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز نوٹسز بھی جاری کیے گئے۔
جسٹس عرفان سعادت نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل سے کہا کہ حامد خان صاحب !آپ کیسے کہہ رہے ہیں آپکو سنا ہی نہیں گیا؟چیف جسٹس نے سوال کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے تقریر میں کیا کہا تھا؟وکیل حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی تقریر پڑھ کر سنائی پھر گویاں ہوئے کہ اس وقت سابق چیف جسٹس انور کاسی کیخلاف بھی کاروائی چل رہی تھی،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ انور کاسی کا معاملہ شوکت عزیز صدیقی کیس سے کیسے جوڑ رہے ہیں؟حامد خان نے جواب دیا کہ سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ ہمارے خلاف گواہ بن گئے تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ شوکت صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا، کیا جب کونسل ازخود کارروائی کرے تو بھی انکوائری کرنا ہو گی؟چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل نے خود کیسے کارروائی کا آغاز کیا ہمیں رجسٹرار آفس کا نوٹ دکھائیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیکرٹری کونسل کیسے شکایت کنندہ ہو سکتا ہے؟چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے کونسل نے ہی سیکرٹری کونسل کو کہا ہو؟۔
یہ بھی پڑھیں : زارا نور عباس کو تصاویر شیئر کرنا مہنگا پڑگیا
وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ 1956 اور 1962 کے آئین میں صدارتی ریفرنس کے بغیر جج کو ہٹایا نہیں جاسکتا تھا،1973 کے آئین میں بھی پہلے یہی شرط تھی،2005 میں پہلی بار آئین میں صدارتی ریفرنس کے علاوہ طریقہ کار متعارف کرایاگیا،تفصیلی فیصلہ آنا چاہیے کہ جج کو ہٹانے سے پہلے انکوائری کیوں ضروری ہے،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقریر سے تو انکار نہیں کیا،دیکھنا صرف یہ ہوگا کہ شوکت عزیز صدیقی نے مس کنڈکٹ کیا یا نہیں،کہا گیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے تقریر کر کے عدلیہ کو بدنام کیا،جج کے کنڈکٹ کو تو دیکھا گیا معاملہ صرف الزامات کی حد تک رہ گیا ہے۔