اللہ نا کرے مگر عمران خان نا رہے تو کیا ہوگا؟ 

عامر رضا خان 

Nov 25, 2024 | 16:27:PM
اللہ نا کرے مگر عمران خان نا رہے تو کیا ہوگا؟ 
کیپشن: File Photo
سورس: 24news.tv
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

پاکستان تحریک انصاف اس وقت عمران خان کی نہیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور یہ لڑائی کسی حافظ ، کسی محسن ، کسی شہباز اور کسی مریم کے ساتھ نہیں ہے خود اپنے ساتھ ہے ،جی ہاں یہ بقا کی وہ جنگ ہے جو خود کو ہی ختم کرکے لڑی جارہی ہے، آپ میں سے بہت سوں نے نوکیا 3310 میں سانپ والی گیم کھیلی ہوگی جس میں سانپ جیسے جیسے خوراک لیتا ہے برا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ بل کھاتا یہ سانپ اپنی ہی دُم کو کاٹ لیتا ہے اور مر جاتا ہے ، یہ کھیل سانپوں کی ایک فطرت کو ہی مدنظر رکھ کر ایجاد کیا گیا تھا ۔
سانپ کے اپنی دُم کھانے کے عمل کو حقیقت اور علامت دونوں پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے، جو فلسفہ، نفسیات اور ادب میں گہرے معانی رکھتا ہے۔ حقیقت میں، یہ رویہ ذہنی دباؤ، بھوک، قید کی حالت یا مخصوص بیماریوں کی وجہ سے ظاہر ہوتا ہے، جو سانپ کی کمزوری یا الجھن کی نشاندہی کرتا ہے۔ علامتی طور پر، "اُوروبورس" کے نام سے مشہور یہ تصور دائرے کی تکمیل، تخلیق و تباہی کے تسلسل اور خود شناسی کی نمائندگی کرتا ہے۔ مختلف ثقافتوں میں اسے زندگی اور موت، آغاز اور انجام کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ ادب میں یہ اکثر خود تباہی، نرگسیت یا اندرونی جدوجہد کی علامت کے طور پر بیان ہوتا ہے جبکہ سماجی تناظر میں یہ کسی ایسے فرد یا نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اپنی بقا کے خلاف کام کر رہا ہو۔ یہ عمل نہ صرف ایک نایاب حیاتیاتی حقیقت ہے بلکہ گہرے فلسفیانہ اور سماجی مفاہیم کا حامل بھی ہے، جو ہمیں خود شناسی اور رویوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
کچھ مواقع پر سانپ اپنی ہی دُم کو کھانے کی کوشش کرتا ہے، اور یہ ایک حقیقی مگر غیر معمولی واقعہ ہے،یہ رویہ عام طور پر ذہنی دباؤ یا الجھن کی وجہ سے ظاہر ہوتا ہے، خاص طور پر قید میں رہنے والے سانپ محدود جگہ اور تنہائی کی وجہ سے اپنی دُم کو شکار سمجھ کر کاٹنے لگتے ہیں، اگر ماحول کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جائے تو یہ سانپ کو بے چین کر سکتا ہے اور وہ غیرمعمولی رویہ اختیار کر سکتا ہے، اسی طرح، بھوک کی حالت میں یا اگر شکار کی موجودگی کی خوشبو حواس کو الجھا دے تو سانپ اپنی دُم کو شکار سمجھ سکتا ہے بعض اوقات طبی مسائل یا اعصابی خرابی بھی اس رویے کا سبب بنتی ہیں۔ یہ عمل زیادہ تر قید میں رکھے گئے سانپوں میں دیکھا جاتا ہے جبکہ جنگلی سانپوں میں یہ رویہ بہت کم ہوتا ہے،یہ غیرمعمولی واقعہ عام طور پر سانپ کی صحت یا ماحول سے متعلق مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا سانپ (یہ صرف علامتی تاثر ہے ) قید میں ہے یعنی اُس پر آج پھر نرگسیت ، حسرت و یاس اور بھوک کے گہرے دبیز سائے چھائے ہوئے ہیں ، اور یہی وہ کیفیات ہیں جس میں سانپ اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے ، پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی کے بعد دوسری جماعت ہے جس نے 2011 کے بعد بڑی تیزی سے اپنی نشو نما کا سفر طے کیا ،کھانے کی فراوانی تھی  ، فوجی و سول بیوروکریسی کا آشیرباد سر پر تھا،جنرل فیض (کورٹ مارشل والے ) کی چھتر چھاؤں میں جنرل پاشا کے پیدا کردہ اس عفریت نے تمام روائتی پارٹیوں کو اپنی خوراک بنایا ، سوشل میڈیا کا وہ جال جو دنیا بھر میں پھیلا ہوا تھا اسے استعمال میں لاکر مصنوعی ذہانت سے اذہان کو اپنی طرف مائل کیا جو ویڈیو گیم میں ایک کے بعد ایک خوراک ملنے پر اس پھلتے پھولتے سانپ کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے اور دیگر روائتی سیاستدانوں کا بینڈ بجا رہے تھے ۔

ضرورپڑھیں:سکھ مت کا اونچا استھان اورسکھ سنگتیں
 ہر عروج کو زوال ہے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری نیوٹرل ہوئی تو سانپ کو پالنے والا سپیرا پکڑا گیا سانپ کو بھی قید ڈالا گیا لیکن اب یہاں سے وہ کھیل شروع ہوا جس میں سانپ کو اضطراب و بھوک میں اپنی ہی دُم کو کھا کر ختم ہونا ہے ذرا تصور کیجئے اڈیالہ کے باہر موجود تحریک انصاف میں اس وقت گیم آف تھرون سیریز کا آخری پارٹ چل رہا ہے،3310 والی گیم کو تصور میں لائیے تو اپ کو اندازہ ہوگا کہ پنجاب جو کہ اس سانپ کا بڑا حصہ ہے جدو جہد سے عاری ہوچکا ،یہاں کے لیڈر یا بھاگ گئے یا اندر ہیں، جو باقی ہیں وہ خود کو ہر اہم موقع پر گرفتار کراتے ہیں اور چند دن سکون کے گزار کر پھر باہر آجاتے ہیں ، اس گیم آف تھرون میں سانپ کی دم اور سر ابھی بھی متحرک ہیں۔ بشریٰ بی بی کے باہر آنے سے علیمہ خان بمعہ اپنی دوسری بہنوں اور ہمنوا کے ساتھ بے بس ہیں ، علی امین گنڈا پور پوری پارٹی میں بے اعتبارے اور بشریٰ بی بی کے بعد اپنی کُرسی بچانے کے چکر میں ہیں آپس  کی ڈرامہ بازیاں اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہیں، خیبر پختونخوا میں اندر ہی اندر پلنے والا لاوا جلد ہی پھوٹ پڑے گا  اور بشریٰ بی بی سعودی عرب والا بیان دیکر اپنی سیاست اور گھریلو عورت کے تاثر کو ختم کرچکی ہیں ۔
اسلام آباد والے دھرنے کا انجام آپ کے سامنے ہے، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان لا تعلق ہے، خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کا جتھہ ساتھ ہےاور قیادت کون کر رہا ہے کسی کو علم نہیں،یہ جتھہ اسلام آباد کب پہنچے گا یا نہیں پہنچے گا کوئی نہیں جانتا؟ کہ کچھ احکامات بی بی کے مانے جارہے ہیں اور کچھ مس گائیڈڈمزائل گنڈا پور کے اور جیسے جیسے بند سانپ کی بھوک بڑھے گی وہ اپنی ہی دُم کو کاٹ کھانے کی کوشش کرے گا جو اس مقبول پارٹی کو آج کی پیپلز پارٹی والی پوزیشن پر لے آئے گا ،ایک صوبے کی حکومت اور بس،اللہ پاک لمبی عمر عطاء فرمائیں لیکن سوچیں جب کپتان نا ہوگا تو اس پارٹی کا کیا ہوگا ۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

Amir Raza Khan

عامر رضا خان سٹی نیوز نیٹ ورک میں 2008 سے بطور سینئر صحافی اپنی خدمات سرانجام دے رہے۔ 26 سالہ صحافتی کیریر مٰیں کھیل ،سیاست، اور سماجی شعبوں پر تجربہ کار صلاحیتوں سے عوامی راے کو اجاگر کررہے ہیں