کوئی ڈرتا ہوگا لیکن میں نہیں ڈرتا کیونکہ یہ میرے خون میں ہی شامل نہیں ہے، میں ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کو ہی جہاد سمجھتا ہوں اور اب جب یہ ظلم عظیم کیا جارہا ہے تو میں کیسے خاموش رہوں گا ،جی ہاں جو کچھ اسلام آباد اور پنجاب خیبر پختونخوا کی سرحد پر کیا جارہا ہے اُس پر کیسے خاموش رہا جاسکتا ہے خبر توپڑھیں کہ ظلم کا یہ نیا محاز کیسے کھولا جارہا ہے .
پنجاب اور خیبر پختونخواکی سرحد پر اپنی ڈیوٹی دیتے ہوئے کانسٹیبل مبشر کو گولی مار کر شہید کردیا گیا اس جگہ پولیس والے زخمی بھی ہوئی ، اسلام آباد میں کشمیر روڈ پر شر پسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی، چار رینجرز اہلکار شہید ہوئے اور کئی ایک زخمی ہیں ، تول پلازے جلائے جارے ہیں 26 نمبر چونگی کو جلایا اور لوٹا گیا لٹیروں کا یہ جتھہ مسلح بھی ہے اور افغانستان سے تربیت یافتہ بھی کل یہ خبر بھی آئی کہ کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے 1500 تربیت یافتہ پولیس اہلکار مانگے وہ بھی بنا وردی کہ صاف ظاہر ہے کہ یہ پولیس اہلکار اگر وردی میں نہیں ہوں گے تو انہیں کیسے پہچانا جائے گا ایسے میں مریم نواز کا یہ بیان کہ ایک دوسرے صوبے کی پولیس پنجاب پولیس پر حملہ آور ہے غلط نہیں ہے ، حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے جارہے ہیں جتھہ اپنا کام جلاو گھیراو کر رہا ہے اور اب تو حد یہ ہے کہ سری نگر ہائی وے پر شر پسندوں نے گاڑی رینجرز اہلکاروں پر چڑھا دی جس سے چار رینجرز اہلکار شہید ہو گئے جبکہ پانچ رینجرز اور پولیس کے جوان شدید زخمی ہیں، پی ٹی آئی شر پسندوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں اب تک رینجرز کے چار جوان شہید، پولیس کے دو جوان شہید ہو چکے ہیں، اب تک سو سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں جن میں متعدد شدید زخمی ہیں آرٹیکل 245 کے تحت پاک فوج کو بلا لیا گیا ہے،انتشار اور شر پسندوں کو آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے لیے احکامات دے دیے گئے ہیں،انتشاریوں اور شر پسندوں کو موقع پر گولی مارنے کے واضح احکامات دے دیے گئے ہیں، انتشار پسند اور دہشت گرد عناصر کو کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کاروائی سے نپٹنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور کون کرا رہا ہے کیا ریاست ان شرپسندوں جن میں افگان دہشت گرد بھی شامل ہے اتنی بے بس ہے کیا انہیں کسی بھی جگہ حملہ آور ہوانے اور لائسنس ٹو کِل ملا ہوا ہے ،کیا بشریٰ بی بی اور گنڈا پور پر درج دہشت گردی کے مقدمات صرف دکھلاوہ ہیں کیوں نہین ان کی سمیں بند کی جاتین ، ان کے شناختی کارڈ بلاک کیے جاتے ان کے پاسپورٹ کتم کیے جاتے یہ سب شر پسند ہیں جو پاکستان کے امن کے ساتھ کھیل رہے ہیں جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ریاست کے مجرمان کو رہا کرو یعنی ان پر کوئی کیس چلایا ہی نا جائے یہ تو ایک نئی روایت ہوگی یہ دہشت گرد دہشت گردوں کو رہا کرانا چاہتے ہیں یہ ہمارے بچوں کو بلا تفریق رنگ و نسل ، ذات برادری اور صوبے قومیت کے قتل کر رہے ہیں کیا رینجرز کے جو جوان اپنے فرائض منصبی ادا کررہے تھے ان سے کسی نے نام قومیت پوچھی تھی ؟ ۔
ضرورپڑھیں:رینجرزاہلکاروں سمیت 5 افراد شہید،100زخمی ،وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب،شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم
بشریٰ بی بی جو شریعت کا نام لیکر پٹھان بھائیوں کو دہشت گردی پر ابھار رہی ہے کیا سے کھلی چھوٹ دی گئی ہے کیا ریاست صرف مذمت کرئے گی ایکشن نہیں لے گی کیا اس دہشت گردی کا ملک متحمل ہوسکتا ہے وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان دیکھیں" سری نگر ہائی وے پر احتجاجیوں کی جانب سے رینجرز اور پولیس اہلکاروں پر گاڑی سے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتشاری ٹولہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دانستہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے، پاکستان کسی بھی انتشار اور خون ریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا، مذموم سیاسی مقاصد کے لئے خون ریزی نا قابل قبول ہے۔ منگل کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف نے حملے میں گاڑی سے کچلے گئے رینجرز اہلکاروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے شہید اہلکاروں کے درجات کی بلندی اور ان کے اہل خانہ کے لئے صبر جمیل کی دعا کی۔
وزیرِ اعظم نے واقعہ میں ملوث افراد کی فوری نشاندہی کرکے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی، وزیراعظم نے حملے میں زخمی ہونے والے رینجرز و پولیس اہلکاروں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ نام نہاد پر امن احتجاج کی آڑ میں پولیس و رینجرز کے اہلکاروں پر حملے قابل مذمت ہیں، انتشاری ٹولہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دانستہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے، پولیس و رینجرز کے اہلکار شہر میں امن و امان کے نفاذ کے لئے مامور ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ انتشاری ٹولے کے ہاتھوں شہید سکیورٹی اہلکاروں کے خاندانوں کی زندگیاں تباہ کر دی گئیں،انتشاری ٹولہ گزشتہ روز پولیس اہلکار اور آج شہید کئے گئے رینجرز اہلکاروں کے معصوم بچوں و اہلِ خانہ کو جوابدہ ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ انتشاری ٹولہ انقلاب نہیں خونریزی چاہتا ہے، یہ پُر امن احتجاج نہیں شدت پسندی ہے اور پاکستان کسی بھی انتشار اور خون ریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا، مذموم سیاسی مقاصد کے لئے خون ریزی نا قابل قبول اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مجھ سمیت پوری قوم شہید ہونے والے رینجرز و پولیس کے اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔
کیا صبت جمیل ہی ہمارے حصے میں ہے کیا اس جھوٹے جہاد کرنے والوں کے خلاف سچا جہاد نہیں کرنا چاہیے کیا ریاست بشریٰ المعروف پنکی پیرنی سے ڈرتی ہے اگر ایسا ہے تو ہم پاکستان کے مستقبل کو کیا تعویز گنڈوں اور جادو عملیات کرنے والوں کے حوالے کردیں گے اور بچوں کی لاشوں پر مذمت ہی کرتے رہیں گے
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر