(24نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے سے قبل کیئے گئے اعلانات کے بعد ایک ماحول پید اہوا کہ اگر امریکہ چین کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ کرنے جارہاہے تو یہ یقینی طور پر ایک نئی ’ سرد جنگ’ کی طرف بڑھنے کے مترادف ہے اور اب اس کے کچھ اثرات بھی دکھائی دینے لگے ہیں ، چین کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس پلیٹ فارم ’ ڈیپ سیک‘ کے نئے ورژن کو عین ٹرمپ کی حلف برداری والے دن ہی متعارف کروانا یقینی طور پر کوئی حسین اتفاق تو نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک دبے لفظوں میں ’ وارننگ‘ ضرور ہو سکتی ہے جس نے امریکی برج ہلا کر رکھ دیئے ہیں ۔
پیر کے روز امریکہ کی سٹاک مارکیٹ وال سٹریٹ میں اس وقت بھونچال آیا جب چینی سٹارٹ اپ کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ایپ ’ ڈیپ سیک ‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خوف سے سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر امریکی کمپنیوں کے سٹاک فروخت کرنا شروع کر دیئے اور اچانک سے ایک ٹریلین ڈالر کا دھچکا لگا ۔
اس روز امریکی سٹاک مارکیٹ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ سیمی کنڈکٹر کمپنیاں تھیں جس میں سب سے بڑا دھچکا Nvidia کو لگا اور کمپنی نے اپنے سٹاک کی قیمت میں 17 فیصد تک کمی دیکھی ، یہ مارکیٹ میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان تھا جس میں Nvidia کو 589 بلین ڈالر کاخسارہ برداشت کرنا پڑا ۔ گیمز کے شوقین افراد Nvidia سے اچھی طرح واقف ہیں ، یہ کمپنی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ اس کے نتیجے میں، چپ بنانے والی کمپنی دنیا کی سب سے قیمتی کمپنی کی حیثیت سے اپنی پوزیشن کھو بیٹھی۔
خیر اس سب کے دوران چین کو ’ جیک ما ‘ کے بعد اپنا ایک نیا ’ اے آئی ‘ ہیرو بھی مل گیا جس کے ہر جگہ چرچے ہو رہے ہیں ، ڈیپ سیک لا کر امریکی مارکیٹ میں بھونچال لانے والی شخصیت کا نام ’ لیانگ وینفینگ ‘ ہیں ۔ ڈیپ سیک کے بانی کی عمر 40 برس ہے اور وہ ژجیانگ یونیورسٹی سے مصنوعی ذہانت کے گریجوایٹ ہیں ۔ ڈیپ سیک ایک اسٹارٹ اپ ہے جس کی بنیاد مئی 2023 میں رکھی گئی۔ اس کے بانی لیانگ وین فینگ (Liang Wenfeng) ہیں، جو جنوبی چین کے گوانگ ڈونگ صوبے سے تعلق رکھنے والے ہیج فنڈ انٹرپرینیور ہیں۔ڈیپ سیک کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک تحقیقی ادارہ ہے، جو کسی تجارتی یا منافع کمانے والے ماڈل پر کام نہیں کرتا۔
یہ حیرانی اس دعوے سے پیدا ہوئی ہے کہ ڈیپ سیک نے صرف 6 ملین ڈالر (تقریباً 4.8 ملین پاؤنڈ) میں ایک ایسا AI ماڈل تیار کیا ہے جو اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کے برابر ہے۔ اس کے مقابلے میں، مائیکروسافٹ، جو کہ اوپن اے آئی کا بنیادی شراکت دار ہے، اس سال AI انفراسٹرکچر میں تقریباً 80 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ماضی میں چینی میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں تو لیانگ وین فینگ نے کہا تھا کہ "ہمارا اصول یہ ہے کہ نہ تو نقصان اٹھائیں اور نہ ہی بہت زیادہ منافع کمائیں، ہمارا مقصد موقع سے فائدہ اٹھا کر دولت بنانا نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رہنا اور پورے ایکوسسٹم کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔"
چینی سوشل میڈیا پر لیانگ کو سپر ہیرو قرار دیا جارہاہے اور اس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دوڑ میں اب چین بھی برابر کا حصہ دار بن چکا ہے ، لیانگ کو قریب سے جاننے والے لوگ انہیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا بے حد شوقین قرار دیتے ہیں،وہ ڈیپ سیک کو اوپن سورس پلیٹ فارم کے طور پر برقرار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں ۔
لیانگ وینفینگ ایک بڑا وژن رکھنے والی شخصیت ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بہترین 50 افراد شائد چین میں نہیں ہیں لیکن ہم اپنے اداروں میں ایسے لوگوں کو تیار کر سکتے ہیں جو مستقبل میں دنیا کے بڑے نام بنیں گے ۔
امریکہ کی چین کو مصنوعی ذہانت کی ایپس کی تیاری کیلئے چپ کی فراہمی پر پابندی عائد کیئے جانے کے بعد ایسا سنگ میل عبور کرنا یقینی طور پر چیلنجز سے خالی نہیں ہو گا لیکن اس کے باوجود یہاں تک پہنچنا واقعی امریکہ کیلئے ایک دھچکا ثابت ہونا ہی تھا ،ڈیپ سیک کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے اے آئی ماڈل کو دو ہزار چپس کو استعمال کرتے ہوئے تربیت دی اور اس عمل میں ہزاروں کم درجے والی چپس بھی استعمال ہوئی ہیں جس کی وجہ سے اس کمپنی کی اشیا سستی دستیاب ہیں۔
امریکہ کی طرف سے عائد کیئے گئے پابندیاں یقینی طور پر چین ماہرین کیلئے رکاوٹ نہیں بلکہ ایک چیلنج ثابت ہوئی اور اس کے جواب میں کم خرچ میں انتہائی جدید چپس تیار کی گئیں ۔ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ چین نے الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت میں بھی انقلاب برپا کر دیاہے اور حال ہی میں پاکستان میں متعارف کروائی گئی گاڑیاں صارفین کی جانب سے بے حد پسند کی جارہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈرائیونگ لائسنس فیس 5 سال کیلئے اپ ڈیٹ کردی گئی