جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے معاشروں میں جہاں انسانوں کو بے پناہ سہولیات، باہمی ابلاغ اور اظہار رائے کے غیر محدود وسائل مہیا کئے وہاں صرف سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے ہزاروں انسانی زندگیاں غیر محفوظ ، شخصی پرائیویسی مخدوش اور عزت نفس کے احساس کو مجروح کرنے کے علاوہ تشدد،بے یقینی اور ذہنی انتشار کو بڑھا کر اُس سکونِ قلب کو بربادکر دیا جو تہذیب کو بنیادیں فراہم کرتا رہا ۔ تہذیب ابتری اور بدنظمی کے خاتمہ سے شروع ہوئی، جب خوف پہ قابو پا لیا گیا تو تجّسس و تعمیری اوپچ آزاد ہوئے اور انسان قدرتی طور پہ زندگی کی تفہیم اور تزائین کی جانب متوجہ ہوگیا، یہ ایک نوع کا جدلیات عمل تھا جس میں تضادات ارتقاءکا زینہ بنے،انسانی تہذیبوں نے روایتی طور پر خود کو پیداواری نظام کے ارد گرد منظم کیا ، جس کا وجود طبقاتی درجہ بندی کے ذریعے مرکزی کنٹرول اور قلیل وسائل کی تقسیم پرمبنی تھا ، یہ نظام کائنات بارے انسانی عقائد، پیدوار کے سائنسی طریقوں اور معاشرتی اقدار کو صحتمند شعور سے منسلک رکھتا یعنی ایسا تنظیمی ڈھانچہ جس میں نظام کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری نظامی خصوصیات کے طور پر استحصال اور عدم مساوات بھی ایک محرک طور پہ شامل تھی لیکن آج سوشل میڈیا کی تیزی سے پھیلتی حرکیات نے اخلاقی و سماجی نظام، مذہبی اقدار اور اذہان کی کلاسیکی ساخت کو دگرگوں کرکے فکر کے اجتماعی دھارے کو زندگی کے مفید ادراک سے جدا کر دیا ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت کئی عالی مقام لوگوں کی فحش ویڈیوز کا اجراء ، سندھ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کا قتل اور مفتی طارق مسعود کی کرب انگیز التجائیں انہی التباسات کی بدترین گونج ہیں ۔ چنانچہ اب امریکی کانگریس سمیت دنیا بھر کے تھنک ٹینکس اور فکری فورمز سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا تقاضہ کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنا ممکن ہو گا ؟ اس ضمن میں اہل دانش کو تین بڑے چیلنجز درپیش ہیں، پہلی ایک گہری لیکن معقول تشویش کہ حکومتیں قانونی تادیب کے ضابطوں میں نہایت قریب سے شامل ہو رہی ہیں گویا جمہوری حکومتوں کو بھی حد سے زیادہ سنسر کرنے کا لالچ دیا جا سکتا ہے تاکہ قومی سلامتی،امن عامہ، سیاسی اصلاحات،مذہبی تقدس، اخلاقی حقانیت، یہاں تک کہ سماجی مصلحت کے نام پر بنیادی آزادیوں کی تحدید ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔
ضرورپڑھیں:خودکشی سے کشکول توڑنے تک کا سفر ،کیا یہ آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا؟
اگرچہ بظاہر انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ریاستی جبر کے خلاف پُرامن مزاحمت منظم کرنے اور سیاسی و سماجی آزادیوں کے دفاع کے لیے سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ، مغربی محقیقین نے دریافت کیا کہ یہ تنازعات کی حرکیات کو سمجھنے اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کا موثر وسیلہ بن سکتا ہے لیکن اس سب کے باوجود انسانی حقوق ، جمہوریت اور امن کو فروغ دینے کے لیے ٹول کے طور پر سوشل میڈیا صلاحیت کا مایوس کن ریکارڈ تہذیب و انسانیت کی موت نظر آتا ہے ،جس کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے کی مہمات نے انبوہی تشدد ، انتہا پسندی اور سیاسی انتشار کو بڑھانے کے علاوہ ویڈیو چیٹ کے ذریعے جنسی بے راہروی ، آن لائن ہراسگی اور شرم و حیا پہ مبنی سماجی اقدار کی بیخ کنی کرکے زندگی کے فطری نظم و ضبط کو ادھیڑ کر رکھ دیا ، صرف امریکہ میں37 فیصد نوخیز لڑکیاں پورن مواد تک رسائی کے ذریعے اپنی فطری عفت کو ایکسپوز کر بیٹھتی ہیں ۔ چنانچہ یوروپ میں اب یہ بحث شروع ہے کہ اس زوال کو اس وقت تک روکا نہیں جا سکتا جب تک سوشل میڈیا فرمز اور شہری موجودہ پالیسیوں اور طریقوں پر نظر ثانی پہ تیار نہیں ہوتے ۔ لاریب، پالیسی سازوں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جمہوری اداروں اور انسانی بہبود کے تحفظ کے علاوہ بنیادی آزادیوں اور سیاسی حقوق کے دفاع کے لیے سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کوئی صورت نکالنا پڑے گا، اسی لئے پالیسی سازوں نے موثر نگرانی اور سخت ڈیٹا مینجمنٹ گائیڈ لائنز بنا کر نقصان دہ سوشل میڈیا ڈس انفارمیشن مہمات کو روکنے کی تجاویز دیتے ہوئے، ٹیک کمپنیوں کو اپنے سوشل میڈیا ٹولز کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کا مشورہ دیا تاکہ انہیں نقصان دہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کئے جانے اور اتفاق رائے کے برعکس تنازعات کی حمایت کرنے سے روکا جا سکے ۔ بلاشبہ سوشل میڈیا کی لہروں نے قیام امن کے لئے اتفاق رائے کے حصول کو ناممکن بنا دیا ہے ۔
ہمارے ارباب حل و عقد نے بھی اس ایشو پہ پبلک ڈسکورس سے قبل تنازعات کے اداکاروں کو شناخت کرنے ، ان کے باہمی روابط کا پتہ لگانے اور ان کے مقامی سپورٹ نیٹ ورکس کو سمھجنے کے لئے سوشل میڈیا مواد کا جائزہ لینے کی خاطر فائر وال کی تنصیب پہ اکتفا کرلیا ، جس کے ذریعے محققین مقامی مسائل بارے بصیرت حاصل کرنے کی خاطر اُس سوشل میڈیا مواد کی نگرانی کریں گے جو سیاسی تشدد کا اہم محرک ہے ،یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے لوگوں کے لئے جمہوریت اور انسانی حقوق کے دفاع میں سیاسی طور پر متحرک ہونے کے مواقع پیدا کئے تاہم اس پیش دستی سے کسی ٹھوس کامیابی کے برعکس انہیں غیرمختتم انارکی اور بدترین سیاسی تشدد کا تحفہ ملا ، جس نے آزادی اور امن جیسے بنیادی مقاصد کو ملتبس کر دیا ۔ 2009 میں ایرانی شہریوں نے صدارتی انتخابات کے نتائج کے خلاف مظاہروں کو منظم کرنے کے لیے ٹوئٹر کا استعمال کیا ۔ 2011 میں عرب بہار کے دوران، مصر، تیونس اور لیبیا میں مظاہرین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کومتحرک کرکے اپنے اندرونی معاملات میں عالمی طاقتوں کے لئے مداخلت کی راہ ہموار بنائی، جس کے نتیجہ میں مغربی طاقتوں نے بالآخر مضبوط حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں کبھی نہ تھمنے والی شورشوں کو بھڑکا دیا ، شاید اس لیے ایران چین اور شمالی کوریا میں فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب بلاک ہیں ۔ ہرچند کہ سوشل میڈیا لوگوں کے لیے انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہونے یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد شیئر کرنے کا مواصلاتی چینل ضرور بنا،جس سے معلومات پر حکومتی اجارہ داریاں ختم ہوئیں ۔تاہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابات کے باوجود فیک نیوز کی بدولت انسانی حقوق ، جمہوریت اور امن کے لیے سوشل میڈیا سے جڑی زیادہ تر امیدیں دم توڑگئیں بلکہ یہ تنازعات میں حصہ ڈالنے کے بڑھتے امکان بارے تشویش میں تبدیل ہوتی گئیں۔ بدترین حالات میں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اندرونی اختلافات بڑھانے ، جمہوری انتخابات میں مداخلت کرنے، مسلح تشدد کو بھڑکانے، دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو بھرتی کرنے یا انسانیت کے خلاف جرائم میں حصہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ، جیسے حال ہی میں برطانوی شہر لیڈز اور اس سے پہلے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے معاملات سامنے آئے ۔ 2020 میں 81 ممالک میں سوشل میڈیا کی ہیرا پھیری اور 48 ممالک میں سیاسی اداکاروں کو مائیکرو ٹاگٹنگ حسابی پروپیگنڈا مہمات سر کرنے والی فرموں کے شواہد ملے ہیں ۔ اگرچہ پروپیگنڈہ کوئی نئی بات نہیں تاہم سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا روایتی میڈیا کے مقابلے میں الگ چیلنجز اور غیر ارادی طور پر تنازعات کو آگے بڑھا کر قیام امن کی کوششوں کو ناکام کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے خبروں کی تقسیم اور کھپت میں اضافے نے ایڈیٹرز اور صحافیوں سے معلومات کی ترسیل کے لیے گیٹ کیپنگ پاور چھین لی جو کہ پیشہ ورانہ ضابطوں، نقصان کو محدود کرنے کے اصولوں اور ادارتی خطوط کا پابند بناتی تھی ۔ اس اندھے مقابلہ کی فضا میں اب دنیا بھر کے خبر رساں ادارے مواد تیار کرنے والوں سے ، ملکی اور بین الاقوامی سطح کے ، فضول ،سنسنی خیز، سازشی تھیوریز ، انتہا پسندانہ اور اشتعال انگیز تبصرے حاصل کرکے انہیں خبر کے طور پر پیش کرنے لگے ہیں ۔
سوشل میڈیا فورمز فی الحال صارفین کےلئے مفید مواد فراہمی کی ذمہ داری سے مبرا اور سچائی کے ثالث بننے سے گریزاں ہیں ۔ جنوری 2021 میں امریکہ میں کیپٹل ہل پر ہجوم کا حملہ، جزوی طور پر، اس جھوٹے وسیع دعوی کا محرک تھا کہ 2020 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ۔ مشرق وسطیٰ میں حقائق کی جانچ کرنے والے نیٹ ورک نے وضاحت کی کہ کس طرح آن لائن افواہیں ہلاکت خیز ہوتی ہیں، عراق میں مخصوص لوگوں کے بارے میں جعلی آن لائن خبریں بسا اوقات کئی لوگوں کی جان لینے کا سبب بنیں یعنی سوشل میڈیا رویّوں میں تبدیلی کا ایسا نظام بن گیا جس کے نتائج تباہ کن ہیں ، یہ بات بھی تیزی سے واضح ہو رہی ہے کہ عالمی سوشل میڈیا مہمات تنازعات کی حرکیات میں مداخلت کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی فلاح کی تنظیموں کو بدنام کرنے کے لیے منظم آن لائن مہمات میں 2013 اور 2017 کے درمیان شام میں سینکڑوں انسان دوست وائٹ ہیلمٹ رضاکاروں کو سوشل میڈیا پر اس دعویٰ کرنے کے بعد مار دیا گیا کہ وہ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے ۔ سوشل میڈیا کی غلط معلومات کو روکنے کے لیے پالیسی کوششیں مختلف زمروں میں آتی ہیں، تعزیری نقطہ نظر ، رضاکارانہ ضابطہ اخلاق اور صارفین میں ذہنی لچک پیدا کرنا ۔ تعزیری نقطہ نظر یعنی غلط معلومات کی تخلیق کو جرم قرار دینا جبکہ رضاکارانہ ضابطہ اخلاق اور لچک پیدا کرنے اور ڈیجیٹل خواندگی میں سرمایہ کاری وہ پالیسیاں ہیں جو جمہوریتوں کی طرف سے ترجیحاً پیش کی جاتی ہیں۔