اسلام آباد میں کیا ہورہا ہے ؟ بینک لوٹے جارہے ہیں، لوگوں کو گولیاں ماری جارہی ہیں ،یہ سب اچانک ایسے کیسے شروع ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ سب خارجی ہیں ؟ جو فارن فنڈنگ بند ہونے کے باعث اب بینک لوٹ کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے رقم اکٹھی کر رہے ہیں ؟ ایسے حالات تو کبھی کراچی میں بھی دیکھنے میں نہیں آئے جیسے آج اسلام آباد ، پاکستان کے دارالحکومت ، سیف سٹی ، پڑھے لکھے لوگوں اور حکومت کی ناک کے نیچے آباد اس شہر کے ہوگئے ہیں، ایسا کیوں ہے ؟ وہ میرے تمام سوالات سنتا رہا، چائے کی چسکیاں لگاتا رہا اور مسکراتا رہا ،میرے اس دوست صحافی کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ یا تو وہ ان کارروائیوں میں شریک جُرم ہے یا وہ کچھ جانتا ہے جو لاہور میں بیٹھا میرے جیسا عام انسان نہیں جانتا ، اُس کا اطمینان میرے اضطراب کو بڑھا رہا تھا! میں نے گفتگو پھر شروع کی کہ بھائی تم اسلام آباد کے ہو تمہیں ہم سے زیادہ علم ہوگا ،حالات کا کچھ ہمیں بھی بتاؤ ۔
اب وہ گویا ہوا کہ تم اسے خارجیوں کی کارروائی قرار دے رہے ہو، شائد عام پاکستانی کی سوچ اسی طرف جائے لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی تو ہوسکتا ہے ؟ کبھی اس پر بھی سوچنا چاہیے، میں سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن ہم ان تمام واقعات کو ملا کر کیوں نہیں پڑھتے، ریسرچ کے لیے ہی سہی، ہمیں کڑی سے کڑی ملانا تو چاہیے۔ پولیس کا تفتیشی نظام بھی ایسے ہی کام کا آغاز کرتا ہے کہ دیکھا جاتا ہے کہ متاثرہ فریق کی کسی کے ساتھ دشمنی تو نہیں ہے ، متاثرہ فریق کو نقصان پہنچنے سے کس کو ذہنی و جسمانی سکون میسر آتا ہے ، متاثرہ فریق کو کسی شخص یا گروہ کی طرف سے دھمکیاں تو نہیں دی جارہی تھیں اور سب سے بڑھ کر وارداتوں کا یہ سلسلہ کس نوعیت کا ہے اور اس میں کس قسم کا اسلحہ استعمال ہوا ہے ۔
ضرورپڑھیں:سعودی عرب سے بڑی خبر ,پیٹرول 63 روپے سستا
اب ذرا ان خبروں کو دیکھو ، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کا اسلام آباد پر دھاوا ، متعدد پولیس اہلکار زخمی سرکاری گاڑیوں کا قافلہ لیکر علی امین گنڈا پور جن پر دہشگردی کے مقدمات ہیں، وہ اسلام آباد آئے لیکن پھر اچانک غائب ہوگئے، 24 گھنٹے بعد وہ خیبر پختونخواہ اسمبلی میں نازل ہوئے اور جو پہلا بیان دیا وہ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی کے خلاف دیا اور کہا کہ میں اسے نہیں چھوڑوں گا (یہاں اسے کسی اور دھمکی سے نا ملایا جائے بلکہ وہ کہنا چاہتے ہوں گے نوکری پر نہیں رہنے دوں گا ) اس کے بعد متعدد مرتبہ انہوں نے ایسے بیانات اور دھمکیوں کی ایک سیریز چلائی جس میں علی ناصر رضوی آئی جی اسلام آباد کو براہ راست مخاطب کیا اور ہر وہ بات کہی جو گلی محلے کے لڑاکو کیا کرتے ہیں ، اب یہاں سے اگلی خبروں کی طرف چلتے ہیں سب سے پہلے دہشت گردی میں ملوث پی ٹی آئی ملزمان کی قیدی وینز پر نامعلوم افراد کا حملہ ہوتا ہے ،نامعلوم افراد متعدد قیدیوں کو چھڑوا کر لے جاتے ہیں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں، حملہ آوروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی آجاتی ہے ، جس میں نامعلوم افراد نے پولیس قیدی وینوں پر فائرنگ کی، شیشے بھی توڑے ، آئی جی اسلام آباد نے میڈیا کانفرنس میں بتایا کہ حملہ کرنے والوں میں پی ٹی آئی کے چار کارکنان کو گرفتار کیا گیا، اس میں ایک رکن اسمبلی خیبر پختونخوا کا بیٹا بھی شامل ہے جس سے کلاشنکوف بھی برآمد ہوئی ہے لیکن فرار ہونے والے قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا، پولیس نے قیدیوں کو فرار کروانے کی کوشش ناکام بنادی ، چار افراد گرفتار ہوئے ، اس میڈیا کانفرنس کے جواب میں علی امین گنڈا پور پھر سامنے آئے، تمام بیانات کو جھوٹا قرار دیا اور علی ناصر رضوی کو نا چھوڑنے کا اعادہ کیا ۔
اس کے بعد اسلام آباد میں پے در پے بینک ڈکیتیوں کی وارداتوں کا آغاز ہوجاتا ہے، حملہ آور معمولی نوعیت کی تربیت یافتہ نہیں کلاشنکوف بردار دہشت گرد تھے جنہوں نے جہاں جہاں کیش دیکھا وہاں بے دھڑک فائرنگ کی اب تک ان کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور 9 زخمی ہیں ، طریقہ واردات روائتی ڈاکوؤں والا نہیں، دہشت گردوں والا ہے ، اس طرح کی وارداتوں کا نقصان صرف اور صرف آئی جی اسلام آباد کو ہوگا جس علاقے میں وارداتیں بڑھ جائیں وہاں کے پولیس آفیسر کی سمجھو شامت آئی اور اسے ہٹا دیا جاتا ہے اور اس کیس میں سیدھا سیدھا ایک ہی مقصد ہے کہ علی ناصر رضوی کو ہٹوایا جائے ۔
اب یاد کرو سانحہ 9 مئی کو صرف ایک پولیس آفیسر کو ٹارگٹ کیا گیا تھا، وہ یہی علی ناصر رضوی تھے جنہیں جان سے مارنے کی کوشش کی گئی آنکھ زخمی ہوئی اور وہ بھی ایسی کہ اندرون اور بیرون ملک سے علاج کیا گیا یہ پرانی عداوت نظر آتی ہے ۔ میں وثوق سے کوئی بات نہیں کہہ رہا لیکن اگر کسی تھرڈ پارٹی سے بھی رائے لیں کسی قانونی ماہر کو بلالیں، اگر میری بات غلط ہو تو میں تسلیم کرنے کو تیار ہوں لیکن نتیجہ یہی نکلے گا کہ ان تمام وارداتوں کا متاثرہ فریق صرف اور صرف ایک ہے، وہ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی اور فائدہ صرف اسے ہوگا جو علی ناصر رضوی کو اسلام آباد قبضے میں کرنے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے ، اللہ کرے میرے خدشات غلط ہوں ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر