فوج سے مذاکرات،پی ٹی آئی کا یوٹرن،حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)تحریک انصاف یہ تاثر دیتی رہی کہ اُس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر ہورہے ہیں ،لیکن بانی پی ٹی آئی کا تازہ بیان تو کوئی اور ہی کہانی بتا رہا ہے،بانی پی ٹی آئی پہلے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحانہ طرز اپناتے رہے اور اب وہ یوٹرن لیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں،میڈیا رپورٹس کے مطابق بانی پی ٹی آئی پاک فوج سے مذاکرات کرنے کی حامی بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاک فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے ہم مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہیں،ہم نے فوج پر الزامات نہیں تنقید کی تھی،اب اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہوئے نہیں بلکہ اب تک مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے،بانی پی ٹی آئی کی پاک فوج سے مذاکرات کی خواہش نئی نہیں بلکہ اِس سے پہلے شہریار آفریدی ،رؤف حسن اور شبلی فراز بھی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ مذاکرات حکومت سے نہیں صرف پاک فوج سے ہوں گے۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف پر یہ الزام ہے کہ وہ پہلے اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی کرتی رہی،اُن کیخلاف پورا ایک بیانیہ بناتی نظر آئی اور اب وہ اسٹیبلشمنٹ سے قربتیں بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے،جبکہ دوسری جانب حکومت کی صفوں میں بھی کہیں نہ کہیں یہ بے چینی ضرور ہے کہ اگر تحریک انصاف کے حق میں ہوائیں چلنا شروع ہوگئی تو پھر مشکلات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ خود اُس کیلئے شروع ہوجائے گا،حکومتی وزراء کے بیانات سے تو مایوسی جھلکتی ہوئی بھی نظر آتی ہے،یہی وجہ ہے حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی،اِس حوالے سے حکومتی وزراء تحریک انصاف کو کیا پیش کش کرتے رہے آئیے اِس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اب حکومت کیلئے ایک بڑا مسئلہ عدالتی فیصلے بھی ہیں ،مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ ہو یا پھر بانی پی ٹی آئی کے مقدمات سے ایک ایک کرکے رہائی ہو،یہ سب معاملات حکومت کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں ،یہاں تک حکومت اِس خدشے کا بھی اظہار کرچکی ہے کہ اکتوبر میں اُس کے خلاف الیکشن کالعدم قرار دینے کی درخوست سپریم کورٹ میں آسکتی ہے،،یعنی کہنے کا مقصد یہ ہے حکومت عدالتی فیصلوں کی وجہ سے بھی دباؤ کا شکار نظر آتی ہے،اور یہی وجہ ہے کہ سینئر سیاستدان محمد علی دورانی فرما رہے ہیں کہ مجھے بہت جلد عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں حکومت تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
ضرورپڑھیں:عمران خان سرپرائز،حافظ نعیم الرحمان کی دھمکی،شہباز حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری؟
اب محمد علی دورانی کے بقول حکومت کو عدالتی فیصلوں سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ،دوسری جانب سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر عمل در آمد کرنے کا حکم دیا ہے جس پر حکومت عمل کرنے سے ہچکچا رہی ہے لیکن الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل کر رہا ہے،الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے مزید ارکان اسمبلی کو پاکستان تحریک انصاف کا رکن تسلیم کرتے ہوئے ان کا نوٹی فکیشن جاری کردیاہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے 29، خیبر پختوانخوا اسمبلی کے 58 اراکین کو پی ٹی آئی کا رکن تسلیم کرلیا۔الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کے 6 اراکین کو بھی پی ٹی آئی کا رکن تسلیم کرلیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے اراکین کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔اب الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو 29 نشستیں ملنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن میں تبدیلی آگئی ہے، مسلم لیگ (ن) 204 ارکان کے ساتھ تاحال پنجاب اسمبلی کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت برقرار ہے۔
پنجاب اسمبلی میں نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 75 رہ گئی جبکہ تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 29 ہے۔ایوان میں پیپلزپارٹی کے 14، مسلم لیگ ق کے 10، آئی پی پی کے 6، جبکہ مسلم لیگ ضیا، تحریک لبیک اور مجلس وحدت المسلمین کا 1،1 رکن ہے۔اِس وقت پنجاب اسمبلی میں مخصوص سیٹوں سمیت خالی نشستوں کی تعداد 28 ہے جبکہ تحریک انصاف کے ایک رکن میاں اسلم اقبال نے تاحال حلف نہیں اٹھایا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اب تک 246 میں سے 93 اراکین کی پی ٹی آئی سے وابستگی تسلیم کرلی ہے۔لیکن اب تک تحریک انصاف کے نامزد ارکان الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے باوجود اسمبلیوں کا حلف نہیں اُٹھا سکے۔اور میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اسمبلی میں اس حوالے سے قانونی مسودہ پیش کر دیا جائے گا، جس کو مبصرین پہلا آئینی بم شیل قرار دے رہے ہیں،یعنی دیکھا جائے تو معاملہ تحریک انصاف کیلئے اِتنا سادہ نہیں لگتا اور ویسے بھی سپریم کورٹ میں حکومت مخصوص نشستوں کے کیسز پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرچکی ہے جس میں فیصلہ ریورس بھی ہوسکتا ہے،یہ پہلی بار نہیں ہورہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے سے ہچکچا رہی ہے،اس سے پہلے سپریم کورٹ نے پنجاب ا ور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی اسمبلی توڑنے کے بعد یہاں انتخابات کا حکم دیا تھا لیکن یہاں صوبوں کی نگران حکومت 8 فروری کو الیکشن تک قائم رہی ،اُس وقت عدالت نے توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا تھا،لیکن کیا اب عدالت ایسا کرے گی یہ ایک سوال ہے ؟