صرف دو دن میں مجھ پر یہ آشکار ہوا کہ ہمارے نظام کی خرابی کی اصل جڑ کہاں پر ہے ، ان دو تین روز سے قبل میں سوچا کرتا تھا کہ ہمارے منصفوں کے فیصلے کیوں انصاف پر مبنی نہیں ہوتے ، ہمارے پیش اماموں کے پیچھے پڑھنے والوں میں نا حضوع ہوتا ہے نا خشوع ،ہمارے استاد ، ہمارے سپاہی ، ہمارے ڈاکٹر ، بیوروکریٹ ، صحافی ، دکاندار ، سرکاری ملازمین ، نجی تعلیمی ادارے ، سرکاری یونیورسٹیاں ، سائنسدان ، مذہبی پیشوا ، انجینئرز، پائلٹ ، وزراء ، وزراء اعلیٰ اور وزراء اعظم ، جرنیل ، اور آئی جی پولیس ، یہاں تک کے رشتے ناطے بھی خالص نہیں ہیں ،ہم دھڑلے سے ناجائز قبضہ مافیا ، تعلیم مافیا ، ملاوٹ مافیا ، تجاوزات مافیا بناتے چلے جارہے ہیں، ایک دیو ہیکل شیطانی سلسلہ ہے جو بچے جنتا چلا جارہا ہے ۔
اس کے مقابلے میں سچ اور سچائی ، دیانت داری و ایمانداری ، محبت و انسیت ، وفاداری و فرمانبرداری کیوں انحطاط کا شکار ہیں لیکن نئے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات خان نے صرف دو ایک روز کی محنت سے میرے تمام سوالات کا جواب میرے سامنے کھول کر رکھ دیا اُنہوں نے صرف دو ایک امتحانی مراکز پر چھاپا مارا اور سسٹم کی تمام تر خرابی کھول کر رکھ دی ، جی ہاں ہمارے سسٹم کی خرابی کا آغاز ہی ہمارے امتحانی سینٹرز سے ہوتا ہے جہاں آٹھویں اور نویں کلاس کے بچوں کو پہلا سبق ہی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں ہی کامیاب ہیں ، جہنم والی حدیث یعنی رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں تو فقط کورس بُک کا ایک مضمون یا سطر ہے جو صرف ایک آدھ نمبر دلا سکتی ہے وہ بھی اگر آپ کو نہیں آتی تو فکر کیسی ؟رشوت دیں موقع پر آپ کو ترجمہ بتادیا جائے گا ، یہ سیکھایا جاتا ہے کہ اصل کامیابی تو آپ کو امتحانی سینٹر کا سپرنٹنڈنٹ اور ویجیلینٹر یا امتحانی نگران دلا سکتا ہے وہ بھی چند منٹ میں۔
ضرورپڑھیں:عظمیٰ بخاری کی زندگی کا پوشیدہ راز
ایسا نہیں ہے کہ نقل کا رحجان پہلے تھا ہی نہیں، ہم نے تو مردے دفن کرنے کا ہنر بھی کوے کی نقل مار کر سیکھا ہے اس لیے مجھے نقل پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اُس نقل پر کہ جو آپ کو ہنر مند بنائے بے ایمان نہیں ۔ امتحانات میں نقل پہلے بھی ہوتی تھی مجھے یاد ہے کہ میرے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں ایک نگران جن کی مونچھیں چارلی چیپلن جیسی تھی نے پینٹ کے اندر شلوار قمیض والی والی قمیض پہنی ہوئی تھی جس کی دونوں سائیڈ والی جیبوں میں وہ بچوں سے اکھٹے کی ہوئی رشوت کو سرعت کے ساتھ جیبوں میں ٹھونس لیتے تھے لیکن اب کے تو منظر نامہ ہی کچھ اور ہے وزیر صاحب کے مطابق نمبرز کے حصول کے لیے پرائیویٹ سکول مافیا سب سے ذیادہ متحرک ہے اچھے رزلٹ کے لیے پورے پورے سینٹرز خریدے اور بیچے جارہے ہیں سپرنٹنڈنٹ نجی افراد کو انچارج بنانے کے پیسے وصول کرتا ہے جو ان نگرانوں نے طلباء سے وصول کرنے ہوتے ہیں بات یہیں ختم نہیں ہوتی تعلیمی بورڈ کے افسران کو بھی اس ساری خریدو فروخت میں شامل کیا جاتا ہے بڑے سینٹر بڑے صاحب کے اور نگرانوں کو بطور معاوضہ دیے جانے والے پیسے کلرک اور صاحب کے پی اے صاحبان حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں سینٹر میں صفائی کرنے والے پانی پلانے والے چوکیدا سب کو شامل کیا جاتا ہے بے ایمانی اور جہنم لے جانے والے اس "کار خیر " والے بے ایمانی کے دھندے میں سب کو ایمانداری سے حصہ دیا جاتا ہے ماضی میں یہ وزراء تک بھی پہنچایا جاتا تھا لیکن اس دفعہ جوان خون سے سامنا کرنا پڑا ہے تو پورے کا پورا نظام ننگا ہوگیا ۔ مجھے کامل یقین ہے کہ رانا سکندر حیات جلد ان تمام مافیاز کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے کہ اُن کے گردا گرد ہی پرائیویٹ سکولز مالکان ، بورڈ کے افسران کے سفارشی سیاسی مصلحتوں میں چھپے چاپلوس براجمان ہوں گے اور یہ کاروبار یونہی چلتا رہے گا ۔
یہ بھی پڑھیں:نریندر مودی بمقابلہ مریم نواز ،سورج پہ لگے گا میدان
یہ تو تھا اس ساری کہانی کا ایک پہلو لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ یہ امتحانی سینٹرز کا چکر صرف لاہور تک محدود نہیں شہر سے باہر ایک جانب اٹک اور دوسری جانب راجن پور تک یہ شیطانی کاروبار پھیلا ہوا ہے حمام میں سب ننگے ہیں بات یہاں ختم نہیں ہوتی یہاں سے تو کرپشن کی فلم شروع ہوتی ہے ذرا سوچئیے اس کرپٹ امتحانی سینٹرز سے نکل کر لوگ ، ڈاکٹر ، پروفیسر ، پولیس و فوجی افسران ، بیوروکریٹ ، استاد ، سیاستدان ، صحافی ، بزنس مین ، عالم دین بن رہے ہیں تو وہ کیسے ایمانداری کے پودے کو پھلنے پھولنے دیں گے وہ تو کرپشن کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے مزید ٹانک فراہم کریں گے کون کمبخت چاہے گا کہ ملک میں ایمانداری کا بول بالا ہو جو روپے دیکر پاس ہوگا وہ آنے والوں کی بھی یونہی حوصلہ افزائی کرئے گا ملک کی مجموعی ترقی کیوں نہیں ہو پارہی اگر اس کی روٹس تک پہنچنا ہے تو آپ کو بورڈ کے تحت سب سے چھوٹے امتحان کو ماڈل بنانا ہوگا اگر اس طرح بھی کوئی افاقہ نا ہو تو میرا مشورہ ہے کہ پھر "بہت ہوا اب اس کام کے لیے بھی فوج کو بلا لیں"
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر