کانگریس کی قرارداد امریکی بے بسی کا مظاہر ہے؟
اسلم اعوان
Stay tuned with 24 News HD Android App
نئے مالی سال کے لئے 67.76 بلین ڈالر کا بھاری ٹیکسوں سے لبریز، فنانس بل2024/25 پر صدر آصف علی زرداری نے دستخط کر دیئے،فنانس بل کو پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے منظور کیا تھا،اس بجٹ میں سالانہ افراط زر کی شرح 13.5 فیصد تک متوقع ہے تاہم حکمراں اشرافیہ امید رکھتی ہے کہ وہ رواں معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر آئی ایم ایف سے 8 بلین ڈالرکا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرکے ڈیفالٹ روک سکتے ہیں۔ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لئے 13 کھرب روپے ٹیکس ہدف کے حامل بجٹ نے تنخواہ دار طبقہ کے علاوہ کم آمدنی والے شہریوںکو تڑپا دیا،جو بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ سے نالاں ہیں۔حکومتی اخراجات میں کمی کی بجائے مالی سال 2025کے لئے محصولات کی وصولی کا ہدف گزشتہ سال سے تقریباً 40 فیصد زیادہ رکھاگیا،جس پر کاروباری برادری نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔
سنہ 2018 کے بعد وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اِس بدقسمت ملک میں گورننس کے بتدریج زوال اور سیاسی عدم استحکام کے باعث سی پیک منصوبہ کی بندش کے علاوہ 6.5 شرح نمو کے ساتھ ابھرتی ہوئی معشت تیزی سے گرنے لگی جس نے محض تین سالوں کے اندر ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے پہنچا دیا ، مستزاد یہ کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران نے مملکت کو فنا و بقا کے خط امتیاز پہ لا کھڑا کیا، پہلی بار 25 جولائی 2022 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حساس علاقوں میں ہولناک جلاو گھیروا کے علاوہ نو مئی2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پہ مہیب حملوں نے مملکت کی چولیں ہلا ڈالیں۔
اگست میں سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کا بپھرا ہوا سوشل میڈیا رجیم چینج کی سازشی تھیوری کو لیکر فوج اور حساس اداروں کے خلاف مہمات چلا کر رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں جُت گیا۔اِسی پُرآشوب ماحول میں 8 فروری کے انتخابات نے داخلی کشمکش کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا لیکن اب پینترا بدل کر پی ٹی آئی نے عالمی سطح کی پیروکاری کے ذریعے دنیا کی بڑی طاقتوں اور عالمی تنظیموں کو مملکت کے اندرونی بحران میں ملوث کرکے اِس گمبھیرتا کو زیادہ سنگین بنا دیا۔امریکی کانگریس کی قرارداد کے بعد جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے صوابدیدی حراست سے متعلق ورکنگ گروپ نے بھی کہا ہے”مناسب علاج یہ ہوگا کہ مسٹر خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے"، تاہم ورکنگ گروپ نے متذکرہ رپوٹ میں پی ٹی آئی کی طرف سے 2022/23 میں سرکاری املاک اور فوجی تنصیبات پہ حملوں اور قومی سلامتی کو گزند پہنچانے جیسے جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف قانونی کاروائیوں کا حوالہ نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیں:مون سون آ گیا، تفریح بعد میں احتیاط پہلے
علی ہذالقیاس ،ملک میں 08 فروری 2024 کے عام انتخابات نئے جمہوری سفر کے آغاز کا موقعہ بن سکتے تھے لیکن انتخابات کے بعد اُبھرنے والی کشمکش نے قوم کو ذہنی انتشار اور بے یقینی کی تیرگی میں اُتار دیا ۔ پاکستانی سیاست عام طور پر اُس روایتی طرز عمل کا تسلسل سمجھی جاتی تھی جس میں حکمرانوں پہ حکمرانی کے نیونوآبادیاتی نظام کے تحت عالمی طاقتوں کی ایما پر براہ راست فوجی حکمرانی کے علاوہ منتخب حکومت کے ادوار بھی ریاستی مقتدرہ کے کنٹرول میں دیکھائی دیتے ہیں۔1990 کی دہائی سے قطع نظر اِسکی قریب ترین مثال 2018 کے عام انتخابات میں ملک کی سب سے مقبول جماعت نواز لیگ کی پوری قیادت کو جیلوں میں ٹھونس کر عوامی حمایت سے عاری پی ٹی آئی کو ایوان اقتدار تک پہنچایا گیا ۔ پہلی بار 1958 کے فوجی مارشل لاءکے بعد یہاں کی سیاست کا یہی معمول متعین ہوا اور اسی سکیم کے تحت عالمی طاقتوں نے 1970 کے انتخابات کو ہمارے مشرقی بازو کو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے کا ٹول بنایا ، اس کے بعد سے ہر انتخابات کی خصوصیتات عالمی و مقامی مقتدرہ کے محور میں گھومنا رہ گئی۔تاہم اگست2021 میں کابل سے امریکی افواج کے انخلاءکے بعد ہمارے ریاستی ڈھانچہ میں ایسی تبدیلیوں رونما ہوئیں جس نےجنوبی ایشیا پہ امریکی گرفت کمزور کرکے نیونوآبادیاتی نظام کو تحلیل کر دیا،جس کے ردعمل میں مغربی طاقتوں نے فوج کو بیرکس تک محدود کرنے کی خاطر یہاں سویلین بالادستی کے بیانیہ کو عمیق سیاسی تنازعہ کا وسیلہ بنا دیا ۔
مغربی میڈیا نے فوج کے سابق اتحادی عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کی انتخابی فتح کو دراصل مقتدرہ کے خلاف ردعمل پہ محمول بتایا یعنی مقتدرہ سیاسی تاریخ کے الٹ پھیر میں عوامی بیانیہ پہ اپنی روایتی اجاراداری کھو بیٹھی،جس کے نتیجہ میں تین ساختی تبدیلیاں سامنے آئیں، پہلا متوسط طبقے کی خواہش کا عروج، تقسیمِ اختیارات کے روایتی بندوبست کا ٹوٹ جانا اور معاشی بحران کا شدت اختیار کرنا۔امر واقعہ بھی یہی ہے کہ پچھلی اٹھ دہائیوں میں پہلی بار انتخابات کے لئے ہمیں کسی معین قریشی یا شوکت عزیز کی ضرورت نہیں پڑی ہمارے قومی انتخابات عالمی طاقتوں کے مفادات کے محور سے ماوراءتھے بلکہ وہ ان شہریوں کے بارے میں تھے جو سیاست میں صریح امریکی مداخلت سے تنگ آچکے ہیں چنانچہ عمران خان کے رجیم چینج اور غلامی نامنظور کے بیانیہ نے وسیع عوامی توجہ حاصل کی اورخان کافی حد تک ووٹرز کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ امریکہ پاکستانی جرنیلوں کے ذریعے ہمارے سیاسی نظام کو کنٹرول کرتا ہے،زیادہ تر نوجوان سائفر کے ذریعے ڈونلڈلو سے منسلک رجیم چینج سازشی تھیوری کا شکار ہوئے,لاریب،جب تک ہماری مقتدرہ پہ واشنگٹن کی گرفت مضبوط رہی اُس وقت تک امریکی کانگریس یا یو این کے ورکنگ گروپوں کو کبھی ایسے مطالبات اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ جو وہ چاہتے تھے وہ ہو جاتا تھا۔لیاقت علی خان،فاطمہ جناح ،حسین شہید سہروردی،شیخ مجیب الرحمن، ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر سے لیکر نوازشریف جیسے مقبول سیاسی رہنماوں کا سبق آموز انجام امریکی تسلط کی کلاسیکی مثالیں ہیں گویا آج امریکی کانگریس کی موہوم قرارداد اور یو این کے ورکنگ گروپ کے مطالبات امریکی بے بسی کی عبرتناک علامت ہیں۔چنانچہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ تبدیلیاں،جنہیں عالمی میڈیا کے ذریعے وقت کے ساتھ تیز بنانے کی کوشش کی جائے گی، متوسط طبقات کی خواہشات، ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ مایوس نوجوانوں اور بڑھتے ہوئے معاشی تناو¿ کو سیاسی بحران کا آلہ کار بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکی شکست کے مضمرات میں سینکڑوں فوجیوں کی شہادت کے علاوہ 80 ہزار شہری کی ناگہاں موت نے جہاں ہماری سماجی زندگی کو تہہ و بالا کر دیا وہاں اسی آشوب کی بدولت ملک کا سار انفراسٹریکچر تباہ اورمعشت کا بہاو دگرگوں ہو گیا،مہیب دہشتگردی کی بدولت غیر ملکی سرمایاکاری معدوم اور مقامی طور پہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں محدود ہوتی گئیں ۔
یہ بھی پڑھیں:دہشت گردوں اور آپریشن عزم استحکام کے مخالفین کی اصل پریشانی
اسی ہمہ جہت زوال کو روکنے کی خاطر نواز حکومت نے ملکی معشت کو جنگ کی تباہ کاریوں سے نکالنے اور بنیادی ڈھانچہ کی تعمیرنو کی خاطر چین کے ساتھ سی پیک معاہدہ کے ذریعے مغرب کی تجارتی منڈیوں پہ انحصار کم کرنے کی جسارت کی تو نادیدہ قوتوں کی مدد سے عمران خان نے 2013 کے پُرتشد دھرنوں اور لانگ مارچ کے ذریعے سیاسی، سماجی اور نظریاتی تفریق کو بڑھا کر قوم کو دلدل سے نکالنے کی اِس کوشش کو ناکام بنا دیا مگر منتخب وزیراعظم نوازشریف کی سپریم کورٹ کے پانچ ججز کے ہاتھوں برطرفی جنرل ایوب اور جسٹس منیر کے وجود سے پھوٹنے والی سیاسی روایت کی آخری لہر ثابت ہوئی چنانچہ اب اس حقیقت سے پردہ اٹھ جانا چاہئے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے ہندوستان سمیت اپنی بہت سی نوآبادیات امریکہ کو سرنڈر کر دی تھیں، امریکی مقتدرہ نے ہندوستان کو روس کے کیمونسٹ انقلاب سے بچانے کی خاطر پہلے افغانستان میں سیاسی شورش کے ذریعے آگ وخون کے دریا بہائے اور پھر پاکستان کی صورت میں مذہبی ریاست کی ایک ایسی آہنی دیوار کھڑی کی جس سے ٹکرا کر بلآخرسویت یونین پاش پاش ہو گیا۔
متذکرہ بالا مقصد کو پانے کی خاطر آزادی کے صرف 6سال بعد ہی فوج نے 1953 میں لاہور میں جزوی مارشل لاءلگا کر عوامی ردعمل چیک کرنے کے بعد 1958 میں امریکی وزیر خارجہ جان فوسٹر اور سی آئی اے چیف ایلن فوسٹر کی موجودگی میں جنرل ایوب خان نے مکمل مارشل لاءنافذ کرکے امریکہ کے عالمی مفادات کی راہ ہموار بنائی اور صلہ میں ملنے والی امریکی حمایت کی بدولت طاقتور فوج کو ملک کی تقریباً نصف تاریخ کے لئے براہ راست حکمرانی کا موقعہ ملا ۔
جب 1958 میں پہلی بار سیاسی اقتدار سنبھالا تو جنرل ایوب خان نے اپنے آپ کو سیاسی دھڑوں کے درمیان ایک غیرجانبدار ثالث کے طور پر پیش کیا اور محض چند برسوں کے دوران، متواتر غیر ملکی جنگوں اور اندرونی سیاسی کشمکش نے سیاست میں فوج کی اہمیت کو مزید تقویت بخشی، جس سے اسے خطرناک خطہ میں اسلامی قوم کے مضبوط قلعہ کے محافظ کے طور پر اپنی مقدس شبیہ کو پروان چڑھانے کا موقع دیا گیا ۔ براہ راست فوجی حکمرانی ہو یا جمہوری بندوبست کے پیچھے، تین وجوہات کی بناءپر فوج ہمہ وقت مقتدر رہی، بنیادی طور پہ امریکہ نے اپنے عالمی مفادات کے تحفظ کے لئے فوج کی ادارہ جاتی ڈسپلن اور تکنیکی مہارت کو بڑھایا،عالمی قوتوں نے کافی وسائل اور قانونی حیثیت دلانے میں اہم رول ادا کیا۔
چنانچہ سیاسی اشرافیہ کے برعکس جرنیلوں نے نہایت منظم انداز میں طویل عرصہ تک عوامی بیانیہ پر اجارہ داری کے کنٹرول کا لطف اٹھایا،جو مذہبی جماعتوں کی حمایت کے ذریعے مو¿ثر طریقے سے ملک کے قومی محافظ ہونے کا دعویٰ کرتی رہی۔اب عالمی طاقتوں کے مفادات اور پوری دنیا کے حالات بدلے تو عالمی برادری یہاں اُس پامال جمہوریت کی افزائش چاہتی ہے جسے عالمی طاقتوں کی پیکار نے کبھی پنپنے نہ دیا ۔ لاریب اب فوج بھی سیاسی وارثت کی منتقلی کی متمنی ہے لیکن عمران خان کی صورت میں سیاسی وارث بنانے کی اسکی پہلی کوشش ناکام ہو گئی، اب دوسری بار مسلم لیگ کی مریم نواز یا پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو کو سیاسی وراثت کی منتقلی کا عمل بھی نشیب و فراز میں الجھتا دیکھائی دیتا ہے۔