(24 نیوز) سینیئر صحافی اور تجزیہ کار صحافی سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ منافع بخش قومی اداروں کی نجکاری بڑی عجیب بات ہے یہ کوئی مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔
24 نیوز کے ٹاک شو ’دی سلیم بخاری شو‘ میں وزیر اعظم کی جانب سے قومی اداروں کی نجکاری کے حوالے سے بات کرتے ہوے سلیم بخاری نے کہا کہ قومی اداروں خاص طور رپ جو ادارے منافع بخش ہیں ان کی نجکاری بڑی عجیب بات ہے اور قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنا بالکل مناسب حکمت عملی نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ اکانومی کو ٹھیک کرنے کیلئے گھر کے برتن ہی بیچ دیئے جائیں یہ بہت بڑا رسک ہے اگر اس سے بھی اکانومی کو سنبھالا نہ مل سکا تو بہت مشکل صورتحال ہو جائے گی ، خاص طور پر پی آئی اے اور دیگر ادارے جن کے اثاثے اربوں ڈالر کے ہیں فروخت کرنے کی سخت مخالفت کی۔
یہ بھی پڑھیں: ’’پی ٹی آئی کا رویہ غیر پارلیمانی، شیر افضل مروت کو قربانی کا بکرا بنایا گیا‘‘
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمار فاروق کو لکھے گئے خط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم بخاری نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ جج صاحبان کے خط اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت کیسے بن جاتے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، یہ نئی نوعیت کے خط ہیں اور نئی نوعیت کی صورتحال ہے, کوئی ذی شعور شخص یقین نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ کون شخص یا ادارہ اس مداخلت میں ملوث ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کے خط کی کوئی اہمیت ہو گی کیونکہ مداخل تو ثبوت مانگتی ہے، کیونکہ اس سے قبل 6 ججز کے معاملے پر بھی بڑی عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا ، جسٹس (ر)تفرق جیلانی کی سربراہی میں جو کمیشن بنا تھا اس کا جو حال پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ نے کیا وہ سب کے سامنے ہے، جب ججز نے یہ خطوط لکھنے ہین اؤل تو ان کو ثبوت بھی دینا ہوں گے، دوسری بات ان تمام ججز کے پاس توہین عدالت کا بہت بڑا ہتھیار ہے جو کہ کسی بھی شخص یہاں تک کے ملک کے سربراہ کو بھی طلب کر سکتا ہے، اگر وہ اپنا اختیار بھی استعمال نہیں کر سکتے تو پھر وہ ان ججز کو نشستوں پر بیٹھنے کا بھی کوئی حق نہیں ہونا چاہیے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کسی کا نام لیے بغیر یا کسی کو بغیر شناخت کے الزام لگا دیں، ایسے الزام کی حیثیت کیا ہو گی؟
نیب قوانین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھاکہ نیب کا قانون ایک ملٹری ڈکیٹر جنرل مشرف نے بنایا تھا ، جس کا مقصد صرف سیاستدانوں کو کنٹرول کرنا تھا ، جس کا واضح ثبوت یہ تھا کہ اس قانون کے تحت کسی کو بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا ، اور 90 دن تک ریمانڈ پر رکھا جا سکتا تھا، دوسری بات جو اس قانون میں بہت عجیب ہے کہ جرم بعد میں بتایا جائے گا گرفتاری اور ریمانڈ پہلے دے دیا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کے پہلے سربراہ جنرل امجد نے اس لیے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ جنرل مشرف کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے نیب کو پولیٹکل انجینرنگ ٹول کے طور پر استعمال کیا، اس ادارے کا وجود ہی بے معنی ہے، اینٹی کرپشن ، ایف آئی اے دیگر ادارے کام کر رہے ہیں تو ا س جیسے ادارے کی کوئی ضرورت نہیں اس کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ بڑی پارٹیوں کے منشور میں نیب ختم کرنے کی شق موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی جی آئی ایس پی آر نے تمام باتیں کھول کر رکھیں جو بہت ضروری تھیں: سلیم بخاری
بھارت کا ایران کی بندرگاہ چابہار چلانے کیلئے 10 سال کے معاہدے کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے ایران کی اس آفر کو چابہار کو گوادر کیساتھ منسلک کر دیا جائے لیکن پاکستان نے اسے کیا 9 سال سے معطل گیس لائن منصوبے کو بھی مکمل نہیں کیا، اور امریکا کو خوش کرنے کیلئے ایران کو خالی چھوڑ دیا ، انڈیا کو موقع دیا کہ وہ اور ایران سے معاہدہ کر کے تجارت کر سکتے ہیں ، جس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ انڈیا نے افغانستان کو اپنی مصنوعات برآمد بھی شروع کر دیں، اس طرح پاکستان نے انڈیا اور افغانستان کو تجارت کا راستہ بھی مہیا کروا دیا جو کہ ہمارے سی پیک کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔