خبردار! جلنے والا کچرا دل کی صحت کے لیے خطرناک 

تحریر: روزینہ علی

Oct 22, 2024 | 10:12:AM

اسلام آباد کی خوبصورتی سے کون متاثر نہیں ہے ملکی یا غیر ملکی سب ہی اس کی سر سبز خوبصورتی سے محظوظ ہوتے ہیں، اسلام آباد کے بڑے بڑے سیکٹرز میں قدم رکھیں تو صاف ستھرا ماحول دل کو بہت ہی بھلا لگتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں گندگی کا نام و نشان نہیں، ہر طرف پھول اور سبزہ ہی سبزہ دل و دماغ کی راحت کا سبب بنتا ہے، مارگلہ کی پہاڑیاں اپنے سرسبز جادوئی حسن سے اسلام آباد کی خوبصورتی کو چمک دمک دے دیتے ہیں، ہر ایک کا دل چاہتا ہے کہ وہ اسی صاف ستھرے ماحول میں اپنا وقت گزارے اور پھر یہی تصور پورے اسلام آباد کے لیے کیا جاتا ہے.. دل، دل، دل، کہتے ہیں دل اچھا تو سب اچھا ہر چیز اچھی لگے گی لیکن دل کا تعلق صرف ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری ہونے سے نہیں ہے بلکہ ماحول کا بھی بڑا گہرا تعلق ہے، دل صرف خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ دل کی صحت بھی اچھی ہونی چاہیے جسکے لیے متوازن غذا کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا ماحول بہت ضروری ہے، آلودگی بدبودار ماحول گندگی ہماری صحت کو ہمارے دل و دماغ کو بہت متاثر کرتے ہیں، آپ نے شاید ماحول کا دل پر اثر اس لیے محسوس نہ کیا ہو کہ آپ نے کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہ کیا ہو مگر اب سوچیں غور کریں اور ماحول کو سنجیدہ لیں کیونکہ آپ کے دل کی صحت کو خطرہ لاحق ہے، کیسے؟؟ اسکی تفصیلات بھی بتاتی ہوں 

 کیا آپ جانتے ہیں اسلام آباد کے بڑے یا چھوٹے سیکٹرز روزانہ کی بنیاد پر ٹنوں کے حساب سےکچرے کے ذمہ دار ہیں، وزارت موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایک شخص اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر صفر اعشاریہ 74 کلو گرام کچرا پیدا کرتا ہے، اسلام آباد میں ٹنوں کے حساب سے پیدا ہونے والا یہ کچرا کس قسم کا ہے اس بارے تحقیقات کیں پھر ڈی جی پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی فرزانہ الطاف شاہ سے رابطہ کیا جنہوں نے اسلام آباد کے ماحول پر تفصیلی گفتگو کی اور پہلے تو بتایا کہ کچرے کی چار اقسام ہیں 

1- میونسپل ویسٹ 

میونسپل ویسٹ یعنی روزمرہ کی بنیاد پر گھروں اور مارکیٹوں سے نکلنے والا کچرا ہے، میونسپل ویسٹ میں پلاسٹک ویسٹ بہت زیادہ ہے اور یہ کارسینو جینک گیسز کا سبب بنتا ہے، یعنی جب پلاسٹک کا کچرا جلایا جاتا ہے تو فضاء میں انتہائی زہریلی گیسز کا اخراج ہوتا ہے جو نہ صرف خطرناک بلکہ انتہائی چیلنجنگ بھی ہیں، ان خطرناک گیسز سے جگر گردے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں، سانس کی بیماریاں ہوتی ہیں، جلدی.بیماریاں ہوتی ہیں، فرزانہ الطاف شاہ نے بتایا کہ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ دیہی علاقوں میں بیشتر خواتین اپنا چولہا جلانے کے لیے بھی پلاسٹک کا سہارا لیتی ہیں تاکہ وہ با آسانی لکڑیاں جلا سکیں تاہم وہ اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ پلاسٹک سے جلانے والی آگ پر جب وہ کھانا تیار کر رہی ہیں تو وہ اس کھانے کو بھی زہریلا بنا رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ پلاسٹک بالکل ورتھ لیس ویسٹ ہے جسے کوئی نہیں اٹھاتا اور دیہی علاقوں میں خاص طور پر کچرا جلانا عام ہے 

2- ہورٹیکلچر ویسٹ 

 باغبانی کا فضلہ (Horticulture Waste) وہ نامیاتی مواد ہوتا ہے جو باغبانی کی سرگرمیوں کے دوران پیدا ہوتا ہے۔ اس میں پودوں کی کٹائی، صفائی، اور دیگر دیکھ بھال کے دوران نکلنے والا کچرا شامل ہوتا ہے۔ یہ فضلہ مختلف اقسام کے پودوں، درختوں، اور زمین کی دیکھ بھال سے جڑا ہوتا ہے۔ جس کی بہت سی آقسام ہیں مثلاً  پتے اور گھاس، جب درختوں اور پودوں کے پتے جھڑتے ہیں یا گھاس کی کٹائی کی جاتی ہے، تو یہ مواد باغبانی کے فضلے میں شامل ہوتا ہے۔دوسرا ٹہنیاں اور شاخیں ہیں، درختوں اور پودوں کی تراش خراش کے دوران نکلنے والی ٹہنیاں اور شاخیں بھی اس فضلے کا حصہ ہوتی ہیں۔تیسرا پھول اور پھل ہیں یعنی خراب یا گرے ہوئے پھول اور پھل، جنہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا، یہ بھی باغبانی کے فضلے میں شمار ہوتے ہیں۔چوتھا سبزیاں اور جڑی بوٹیاں ہیں، وہ سبزیاں اور جڑی بوٹیاں جو ضائع ہو جائیں یا زیادہ بڑھ جائیں، انہیں بھی فضلے کے طور پر ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔پانچواں مٹی اور نامیاتی مواد ہے یعنی کچھ اوقات مٹی کی صفائی کے دوران نکالی گئی اضافی مٹی، کھاد، اور نامیاتی مواد بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔یہ فضلہ ماحول کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اگر اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگایا جائے۔ تاہم، اس کا مثبت استعمال بھی ممکن ہے، جیسے کہ کمپوسٹ بنا کر زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرنا۔تاہم زیادہ تر درختوں کے پتے اور ٹہنیاں جلائی جاتی ہیں اور خاص طور پر یہ منظر خزاں کے موسم میں بہت دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے تو اس موسم میں زمین پر جا بجا ٹہنیاں اور پتے بکھرے ہوتے ہیں۔

3- انڈسٹریل ویسٹ 

مختلف فیکٹریوں سے جمع ہونے والا کچرا، اکثر و بیشتر سوچا جاتا ہے کہ کسی انڈسٹری پر ایکشن کیوں ہوا، فیکٹری کو تالا کیوں لگا، انتظامیہ کا دماغ خراب ہے، تو پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی انڈسٹریز کس طرح آلودگی کا سبب بنتی ہیں،، انڈسٹریل ویسٹ (Industrial Waste) وہ فضلہ یا کچرا ہوتا ہے جو صنعتی سرگرمیوں کے دوران پیدا ہوتا ہے۔ یہ فضلہ مختلف اقسام کا ہو سکتا ہے اور مختلف صنعتوں سے خارج ہوتا ہے، جیسے کہ کارخانے، فیکٹریاں، مینوفیکچرنگ یونٹس، کیمیائی صنعتیں، اور توانائی کے پلانٹس وغیرہ۔ انڈسٹریل ویسٹ میں مختلف اقسام کا کچرا شامل ہے جس میں پہلا ہے ٹھوس فضلہ یہ وہ فضلہ ہوتا ہے جو ٹھوس شکل میں ہوتا ہے اور مختلف صنعتوں سے خارج ہوتا ہے، جیسے دھاتوں کے ٹکڑے، پلاسٹک کے فضلے، کاغذ اور گتہ، گلاس کے ٹکڑے، کپڑے یا ٹیکسٹائل کا فضلہ، لکڑی اور تعمیراتی مواد  پھر اسکے بعد آتا ہے مائع فضلہ  یہ وہ فضلہ ہوتا ہے جو مائع شکل میں ہوتا ہے اور مختلف صنعتوں سے خارج ہوتا ہے، جیسے کہ کیمیائی مواد، رنگ اور پینٹ کے ضائع شدہ مواد، تیل اور گریس، زہریلا پانی جو مختلف صنعتی عمل کے بعد بچتا ہے، گندے پانی کے بہاؤ  صنعتی فضلے میں پھر آتا ہے گیس اور ہوا کا فضلہ یہ فضلہ وہ ہوتا ہے جو گیس یا دھوئیں کی شکل میں ماحول میں خارج ہوتا ہے یعنی فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں، کیمیائی گیسیں، گرین ہاؤس گیسیں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، اور نائٹرس آکسائیڈ۔۔۔۔  زہریلی ہوا جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے ۔

فرزانہ الطاف شاہ نے یہ بھی بتایا کہ  کچھ انڈسٹریل فضلہ ایسا ہوتا ہے جسے ری سائیکل کیا جا سکتا ہے جس میں دھاتیں، پلاسٹک، گلاس پیپر اور گتہ شامل ہیں۔

4- ای ویسٹ

ای ویسٹ (E-waste) یا الیکٹرانک فضلہ وہ کچرا ہوتا ہے جو استعمال شدہ یا خراب الیکٹرانک آلات اور ان کے پرزہ جات سے بنتا ہے۔ اس میں کمپیوٹر، موبائل فون، ٹی وی، ریفریجریٹر، اے سی، پرنٹرز، بیٹریاں، اور دیگر الیکٹرانک مصنوعات شامل ہوتی ہیں جو یا تو پرانی ہو چکی ہوتی ہیں یا خراب ہو جانے کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں رہتیں۔
 خراب بیٹریاں اور ان کے چارجرز بھی ای ویسٹ کا حصہ ہوتے ہیں۔ ای ویسٹ میں سیسہ، پارا، کیڈمیم، اور دیگر زہریلے مادے شامل ہوتے ہیں جو ماحول اور انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔فرزانہ الطاف شاہ نے بتایا کہ دھاتیں حاصل کرنے کے لیے کباڑیے اس کچرے کو خریدتے ہیں بعض صورتوں میں، ای ویسٹ کو جلایا جاتا ہے تاکہ اس میں سے قیمتی دھاتیں جیسے کہ سونا، چاندی، تانبہ، اور پلاٹینم کو حاصل کیا جا سکے۔ لیکن یہ طریقہ ماحول اور صحت کے لیے خطرناک ہے کیونکہ جلانے کے عمل میں زہریلی گیسیں اور دھوئیں پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ گاڑیوں کے ٹائروں کو جلانے کا عمل بھی کیا جاتا ہے بہرحال اس پر تفصیلی مزید پھر کبھی بات کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں : جسٹس یحییٰ آفریدی بارے وہ سچ جو لوگ کم جانتے ہیں

بہرحال اسلام آباد کے بڑے بڑے سیکٹرز میں کچرا اٹھانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ٹیمیں تشکیل ہیں جو کچرا ان سیکٹرز سے دور لے جاتے ہیں لیکن وہ اکٹھا کیا جانے والا کچرا بھی جاتا کہاں ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟؟؟  اسلام آباد کے چھوٹے سیکٹرز یا ترقی پذیر سیکٹرز میں ایسی سہولیات بھی نہیں ہیں کہ جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر کچرا جمع کیا جا سکے ، روزانہ کی بنیاد پر جمع ہونے والا کچرا گلی محلوں کے چوک چوراہے پر جمع کیا جاتا ہے جہاں پر کچرے کو جلایا جاتا ہے اور یہی جلنے والا کچرا فضائی آلودگی اور سموگ کا باعث بنتا ہے، وزارت موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق فی الحال کوئی لینڈ فل سائٹ اسلام آباد میں نہیں کوئی ایسا مقام نہیں کہ کچرا لے جایا جائے پھینکا جائے اور تلف کیا جائے، پابندی کے باوجود کچرا جلانے کی روایت عام ہے۔ 

پاکستان کے دارالحکومت میں مختلف مقامات پر جلایا جانے والا کچرا تیزی سے ماحولیاتی آلودگی کا سب بن رہا ہے اس بارے میں اداروں کی پالیسیوں کے بارے میں جاننا چاہا تو ڈی جی پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی فرزانہ الطاف الطاف شاہ نے بتایا کہ وزارت نے کلین ایئر پالیسی 2023 تیار کی ہے جس کے تحت ٹھوس کچرے کو جلانے اور فضائی آلودگی کے دیگر ذرائع پر کام کیا گیا ہے اور اس ضمن میں قانونی کارروائیاں بھی کی گئیں ہیں جن میں ایچ 13سمیت کہوٹہ میں 6 چھوٹے غیر صنعتی یونٹس کو پلاسٹک کا کچرا جلانے پر بند کیا گیا، سنگجانی میں بی 17 کے قریب 2 بڑے یونٹس کو ٹائروں کو ایندھن میں تبدیل کرنے کے لیے جلایا جاتا تھا جنہیں بند کیا گیا،اسلام آباد انتظامیہ کی مدد سے سیکشن 144 کے تحت ٹھوس کچرے کو جلانے پر پابندی عائد کی گئی اور گزشتہ برس ہی 6 افراد کو قانون کی خلاف ورزی پر گرفتار بھی کیا گیا، مختلف ہسپتالوں جن میں پمز، نیسکام، سی ڈی اے اور فیڈرل ہسپتال شامل ہیں انہیں بھی قانونی نوٹسز جاری کیے گئے اور آئی نائن اور آئی ٹین سیکٹرز میں صنعتی علاقے کی فضائی نگرانی کے لیے دور بین کیمرے بھی لگائے گئے ہیں تاہم یہ کیمرے صنعتی علاقوں کی نگرانی کر رہے ہیں لیکن رہائشی علاقوں کے قریب اب بھی کچرا جلایا جاتا ہے خاص طور پر ماہواری ایام میں استعمال ہونے والے سینٹری پیڈز کو کھلے عام کچرے میں جلایا جاتا ہے جن سے صحت کے کئی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔

 وزارت موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی تبدیلی میں وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر سلام رومینہ خورشید عالم سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ شہر اقتدار اسلام آباد میں تو اب زیرو ٹالرینس پالیسی ہے، ماحولیاتی تبدیلی کو فروغ دینے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، پالیسی بنی ہوئی ہے اور مزید قانون سازی بھی کر رہے ہیں کیونکہ ماحولیات کی تباہی جلنے والا کچرا صرف فضائی آلودگی کا سبب نہیں بن رہا بلکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی جلا رہا ہے آلودہ کر رہا ہے اس کچرے کو جلنے سے روکنا ہوگا عملی اقدامات کرنے ہونگے، رومینہ خورشید عالم نے کہا پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے بری طرح متاثر ہے اسے مزید آگے اور دھوئیں کی نظر نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں : غزہ، بیروت میں نسل کشی، ایران پر جوابی حملے کی بازگشت

کھلے عام کچرے کے ماحولیاتی مسائل کے ساتھ صحت پر کیا اثرات ہیں اس بارے ڈاکٹرز سے رابطہ کیا تو پریشانی ضرور بڑھی کہ ہم صرف مرغن غذاؤں، تلی ہوئی اشیاء فاسٹ فوڈ کو صحت کا دشمن قرار دیتے ہیں لیکن ماحول کو نظر انداز کر دیتے ہیں، اور اپنے گھر کے علاوہ باقی آس پاس کے علاقے گلی محلے کی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر ڈال دیتے ہیں بہر حال پمز میں کارڈیالوجسٹ جسے عام زبان میں لوگ ہارٹ اسپیشلسٹ بھی کہتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر اختر علی بندیشاھ سے ملاقات ہوئی انہوں نے 24 نیوز سے اپنی خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سے دل کے امراض کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جلنے والا کچرا دل کی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے خاص طور پر جو پلاسٹک جلایا جاتا ہے وہ جلنے والا پلاسٹک کا کچرا دل کی نالیوں کو متاثر کرتا ہے، یعنی جلنے والے کچرے سے خاص طور پر پلاسٹک، ربڑ، اور دیگر زہریلے مواد، ہوا میں مختلف مضر کیمیکلز خارج ہوتے ہیں ان کیمیکلز میں کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور دیگر زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں جو سانس لینے کے دوران پھیپھڑوں میں جا کر خون میں جذب ہوتی ہیں تاہم یہ کیمیکلز دل کی دھڑکن کو متاثر کرتے ہیں اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھا دیتے ہیں۔ طویل عرصے تک ان مضر گیسوں کا سامنا کرنے سے دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر، اور شریانوں کے سکڑنے کا امکان بڑھ جاتا ہے، ڈاکٹر اختر علی بندیشاھ نے کہ لوگوں می شعور و آگہی بیدار کرنا ضروری ہے تاہم ریاست کو بھی ذمہ دار بننا ہوگا، ریاست کو عوام کو ان خطرات سے آگاہ کرنا ہوگا، یا تو ریاست اس ضمن میں نئے ادارے تشکیل دے تنظیم سازی کرے یا پہلے سے قائم اداروں کو فعال کرے جو عوام کو خطرات سے آگاہ کرے، ڈاکٹر اختر علی بندیشاھ نے یہ بھی کہا کہ معاشرتی رویوں کو بدلنے کے ساتھ ساتھ قانون سازی اب وقت کی ضرورت ہے تاہم بہتر قانون سازی کے لیے ماہرین اور ڈاکٹرز کو آن بورڈ لینا چاہیے اور مختلف انڈسٹریز اور اینٹوں کے بھٹو کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے، ڈاکٹر اختر علی بندیشاھ نے بھی کچرا جلانے والوں پر جرمانے لگانے کی تجویز بھی دی۔

جلنے والا کچرا انسانی جلد کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے، انسانی جلد پر اس کے کیا اثرات کو سکتے ہیں اس بارے ماہر جلدی امراض جسےڈرماٹالجسٹ کے نام سے جانا ہے ڈاکٹر مبشر سے رابطہ کیا، ڈاکٹر مبشر نے فضائی آلودگی کو انسانی جلد کے لیے مضر قرار دیا، ڈاکٹر مبشر نے کہا کہ فضائی آلودگی اور مسلسل گرد و غبار سے جلد کی حفاظت نہ کی جائے تو جلد پر خارش اور سوزش ہوتی ہے اگر حفاظت اور مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے تو یہ شدید انفیکشن کا باعث بنتا ہے، ڈاکٹر مبشر نے یہ بھی کہا کہ شدید ہیٹ سے تپش سے اور سورج کی تیز شعاعیں جلد کو متاثر کرتی ہیں، الٹرا وائلٹ ریز جلد کے کینسر کا سبب بنتی ہیں، فضائی آلودگی اور ماحولیاتی آلودگی سے جلد کی حفاظت بہت ضروری ہے۔

جلدی امراض اور ماحولیاتی تبدیلی کے جلد پر مضر اثرات کے متعلق مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ جلنے والے کچرے کا انسانی جلد پر سنگین اور منفی اثر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر اگر یہ کچرا پلاسٹک، ربڑ، یا دوسرے زہریلے مادے پر مشتمل ہو۔  کچرا جلنے سے نکلنے والا دھواں اور زہریلی گیسیں جلد کو جلا سکتی ہیں اور شدید جلن کا باعث بن سکتی ہیں۔ 
 کچرا جلنے سے نکلنے والے کیمیکلز جلدی الرجی کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے جلد پر خارش، سرخی اور دانے نمودار ہو سکتے ہیں۔ان زہریلے کیمکلز سے میری اپنی جلد  اکثر و بیشتر  متاثر رہتی ہے، ڈاکٹر مبشر نے بھی اس بات کی تائید کی کہ زہریلے مواد کے مسلسل اثر میں رہنے سے جلدی انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر حساس جلد والے افراد میں خطرہ زیادہ ہوتا ہے 
تاہم یہ مسائل زیادہ تر ان لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جو کچرا جلانے والے علاقوں کے قریب رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔ اس لیے حفاظتی تدابیر اپنانا اور کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانا ضروری ہے تاکہ صحت کے ان نقصانات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں : سند ھ کا نسائی فلسفہ و تصوف !

اب سوال یہ ہے کہ اتنے نقصانات کا سبب بننے والا کچرا ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے تو متبادل کیا ہے اسکا اور اسکا متبادل سب سے پہلے تو ہے شہری آبادی سے دور کوئی مقام جہاں کچرا تلف کیا جائے یا ری سائیکل کیا جائے، اور جس سے شہریوں کی صحت خطرات سے دوچار نہ ہو،، اسلام آباد شہر جسکی آبادی تقریباً 2 اعشاریہ 6 ملین ہے یہاں روزانہ کی بنیاد پر 1535 ٹن ٹھوس کچرا پیدا کرتا ہے جس میں سے 60 سے 70 فیصد ہی بلدیاتی ادارہ سنبھال پاتا ہے جبکہ باقی کچرا کھلے ڈھیروں میں پھینکا جاتا ہے، ستر سال سے زیادہ ہو گئے پاکستان بنے ہوئے اور اس طویل عرصے میں سینکڑوں افراد چیئرمین سی ڈی اے کی کرسی پر براجمان رہے لیکن اسلام آباد کا فضلہ ٹھکانے لگانے کے لیے شہر سے دور کوئی ایسا مقام نہیں بن سکا کہ جہاں کچرا پھینکا جائے، راتوں رات بڑی بڑی عمارتوں کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے، بلڈنگز تعمیر ہوتی ہیں، سوسائٹیز بن جاتی ہیں لیکن ایک لینڈ فل سائیٹ نہیں بن پا رہی کہ جہاں کچرا پھینکا جا سکے، اس وقت اسلام آباد میں سولڈ ویسٹ کے لیے لینڈ فل سائیٹ کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہونے کی ضرورت ہے اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو ڈجی جی پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی اور ماہرین صحت کے مطابق ہر شہری ماحولیاتی آلودگی کے سبب صحت کے انتہائی مسائل سے دوچار ہوگا، پارلیمان کو قانون سازی پر عملدرآمد کروانے کے لیے سخت پالیسی بنانا ہوگی، میونسپل کارپوریشن کو فعال بنانا ہوگا، یہ ماحول صحت مند رہے گا تب ہی تو پاکستان کا مستقبل سنور سکے گا۔

مزیدخبریں