آر ہوگا یا پھر پار؟

محمد طیب زاہر

Nov 23, 2024 | 17:59:PM

پاکستان تحریک انصاف کی کشتی اِس وقت ہچکولے کھارہی ہے،ظاہر ہے اِسی کشتی کا کپتان اڈیالہ جیل میں قید ہےاور بغیر کپتانی کے یہ نیا اپنی سمت بھول چکی ہے،یہ واضح ہوچکا ہے کہ تحریک انصاف ون مین شو ہےیعنی پی ٹی آئی کا مطلب عمران خان ہے اور عمران خان کے بغیر یہ جماعت اپنی حیثیت کھو دے گی اور یہی وجہ ہے کہ لیڈر شپ کے فقدان کی وجہ سے پی ٹی آئی اب تک کوئی بھی مؤثر بیانیہ بنانے میں ناکام رہی ہے ۔

تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کوئی بھی مؤثر حکمت عملی نہیں بنا پارہی یا پھر شاید وہ بنانا ہی نہیں چاہتی ،پارٹی میں اِتنے دھڑے بندی ہوچکی ہے کہ ایک کی بات دوسرے سے میل نہیں کھاتی اور نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جیل میں ہے،اِن کی وکلاء کی ایک پوری ٹیم جود ہے لیکن اب تک اِن کی رہائی عمل میں نہیں لائی جاسکی،یہ الگ بات ہے کہ اِن پر کیسز کی بہتات ہے،یہی وجہ ہے کہ توشہ خانہ 2کیس میں ضمانت ملنے کے باوجود رہا نہیں ہوسکے۔

کُل مقدمات کی بات کریں تو اِس وقت بانی پی ٹی آئی کے خلاف اسلام آباد میں درج مزید 16 اور پنجاب میں 9 مئی کے 8 مقدمات سمیت مزید 50 مقدمات میں ضمانت نہیں ہوسکی ہے،اِس کے علاوہ پنجاب میں بانی تحریک انصاف کے خلاف مجموعی طور پر 54 مقدمات درج ہیں یعنی بانی پی ٹی آئی مزید کچھ عرصے جیل رہ سکتے ہیں  لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اِنہیں زیادہ دیر تک جیل میں نہیں رکھا جاسکتا ،ظاہر ہے حکومت پر بھی دباؤ ہے،وہ ایک حد تک ہی اِس دباؤ کو برداشت کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : پی ٹی آئی احتجاج کے دوران فتنہ الخوارج کی دہشتگردی کا خطرہ،نیکٹا کا الرٹ جاری

الٹیمیٹلی عمران خان نے جیل سے باہر آنا ہی ہے لیکن اِن کے جیل میں جانے سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن عمران خان کیلئے مثبت بات یہ ہے کہ اِس سب کے باوجود اُن کے پاس عوامی طاقت موجود ہے لیکن پارٹی قیادت کی نالائقیوں اور نااہلی کی وجہ سے تحریک انصاف اُس طرح سے عوامی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرسکی جیسا کہ وہ ماضی میں کیا کرتی تھی،اِسی لئے ماضی میں تحریک انصاف کے جلسے اور احتجاج ملتوی ہوئے ،اب کی بار پھر 24 نومبر کی احتجاج کی کال دی گئی ہے اور اب تک قارئین کی نظروں سے یہ سطور گزر رہے ہیں تب تک تحریک انصاف کل احتجاج کرنے جارہی ہےلیکن اِس پر بھی یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ شاید تحریک انصاف اِس احتجاج کو مؤخر کردے،اور اِس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کے خلاف جو بیان دیا ہے اُس کے بعد تحریک انصاف دفاعی پوزیشن پر آگئی ہے اور اِسی تناظر میں بیرسٹر گوہر خان اور سلمان اکرم راجہ اڈیالہ جیل عمران خان سے ملنے گئے تاکہ اُنہیں احتجاج کی کال کو مؤخر کرنے پر راضی کیا جائے لیکن اُنہیں جیل انتظامیہ نے بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دیا اور یوں ان سے مشاورت کئے بغیر واپس آنا پڑا۔

اب پہلی بات تو یہ ہے کہ بشری بی بی نے اگر عمران خان کا کوئی پیغام دینا تھا تو وہ پارٹی کے کسی دوسرے فرد کے ذریعے بھی دلوایا جاسکتا تھا ،ظاہر ہے عمران خان نے ہی بشری بی بی کو 24 نومبر کے احتجاج سے متعلق پیغام پیہنچانے کا کہا ہوگااور اُس صورت میں تو پھر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ خان صاحب کو بشری بی بی کے علاوہ کسی پر بھی اعتماد نہیں ؟ اور اگر بشری بی بی کے ذریعے ہی ویڈیو پیغام پنچانا ناگزیر تھا تو پھر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بشری بی بی کی تقریر کے مواد کو جانچ لیا جاتا کیونکہ وہ عوام سے گفتگو کرنے میں نا تجربہ کار ہیں اور ایسے میں زبان کے پھسلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن کسی نے اِن کی تقریر کے کونٹینٹ کو چیک کرنا مناسب نہیں سمجھا،چلیں یہ بھی نہ سہی لیکن بشری بی بی نے جو ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا اِس کو تو چیک کیا جاسکتا تھا لیکن یہ کام بھی نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی احتجاج سے قبل ہی اسلام آباد میں چھپے 200 مسلح ورکرز گرفتار، اسلحہ بھی برآمد

اب اِس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ بشری بی بی نے ذاتی طور پر ایسا بیان دیا کیونکہ عمران خان تو کہہ چکے ہیں کہ اُن کے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اچھے تعلقات ہیں ،اب تحریک انصاف کے بہت سے رہنما بھی بشریٰ بی بی کے بیان سے اظہار لاتعلقی کر رہے ہیں،یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ تحریک انصاف اپنے کسی ایک بیانیے پر سٹینڈ نہیں کر رہی،کبھی امریکی بیانیہ تو کبھی سعودی عرب کیخلاف بیانیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف کے بیانیے میں مستقل مزاجی نہیں،بہرحال شیر افضل مروت بھی آج سے چند عرصے قبل سعودی عرب پر بانی پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کا الزام لگا چکے ہیں لیکن اُن کے بیان پر اِتنا شور نہیں مچا جتنا بشری بی بی کے بیان کو لے کر پہنچا،ایک تاثر بھی ہے کہ عمران خان جب وزیر اعظم تھے تب اُن کے سعودی ولی عہد سے تعلقات خراب ہوگئے تھے اور تعلقات میں خرابی کی بڑی وجہ عمران خان کا ملیشیاء میں کولا لمپور کانفرنس میں شرکت کرنا تھا،سعودی عرب نہیں چاہتا تھا کہ عمران خان اِس کانفرنس میں شرکت کرے لیکن عمران خان اِس کے بعد بھی سعودی عرب سے تعلقات رہے  اور اب بھی عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے سعودی عرب سے بہتر تعلقات ہیں  لیکن بشری بی بی کے بیان پر یہ تانے بانے بھی جوڑے جارہے ہیں کہ بشری بی بی عمران خان کی رہائی کیلئے سعودی عرب کی حکومت کے اعلیٰ حکام سے رابطے میں تھی لیکن بات نہ بن سکی اور اِس کے جواب میں بشری بی نے یہ رد عمل دیا ۔

یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کی ویڈیو جعلی ہے،مؤکلین نے سب بتا دیا

اب جتنے منہ اِتنی باتیں ہیں ،یہ بات طے شدہ ہے کہ مقتدرہ کی مرضی کے بغیر بانی پی ٹی آئی کی رہائی ممکن نہیں اور اِس بات سے عمران خان بخوبی واقف ہیں،اِسی لئے اُنہوں نے کچھ روز قبل یہ اعتراف کیا تھا کہ اُن کے کسی سے مذاکرات چل رہے ہیں  لیکن وہ نام نہیں بتائیں گے کہ اُن کے کس سے مذاکرات چل رہے ہیں ،اب مذاکرات کو لے کر ہلچل تو ہوئی تھی اور شاید اب بھی ہو رہی ہو کیونکہ علی امین گنڈاپور مفاہمت کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی کہتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ہیں اور حالیہ دنوں میں علی امین گںڈاپور اور بیرسٹر گوہر کی کے پی ہاؤس کے پاس کسی اعلی شخصیت سے ملاقات بھی رپورٹ ہوئی لیکن فی الحال کوئی بڑا بریک تھرو نہیں مل پارہا کیونکہ تحریک انصاف نے جو مطالبات رکھے ہیں وہ حکومت پر بہت بھاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 24 نومبر کو احتجاج کرنے والوں کے ساتھ وہ ہوگا جو نسلیں یاد رکھیں گی

تحریک انصاف کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ جو مینڈیٹ چوری ہوا اس کو واپس کیا جائے لیکن حکومت تو یہ پہلا مطالبہ ماننے کی پوزیشن میں ہی نہیں ،حکومت تو کہہ رہی ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنا اقتدار کسی کو دے دے اور پھر دوسرا مطالبہ 26 ویں آئینی ترامیم کا خاتمہ ہے،اب اگر حکومت نے 26 ویں ترمیم کو ختم ہی کرنا ہوتا تو وہ اتنی بھاگ دوڑ ہی کیوں کرتی ؟حکومت پر تو یہ الزام لگتا ہے کہ وہ دھاندلی کیس سے عدالتی سطح پر نمٹنے اور بانی پی ٹی آئی کے کیسز میں ریلیف کو ختم کرنے کیلئے یہ ترمیم کے کر آئی اور جہاں تک تیسرے مطالبے کی بات ہے جو عمران خان سمیت دیگر پی ٹی آئی اسیران کی رہائی کے حوالے سے ہے وہ شاید حکومت کیلئے قابل قبول ہوجائے لیکن عمران خان دو ٹوک کہہ چکے ہیں جب تک یہ تینوں مطالبات پورے نہیں ہوتے بات آگے نہیں بڑھے گی بلکہ احتجاج کی طرف جائے گی۔

بہرحال فیصلہ یا تو سڑکوں پر ہوگا یا پھر طاقتور حلقوں کی لچک سے معاملہ ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل ہوسکتا ہے،اگر مذاکرات میں مکمل ناکامی ہوتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے پاس احتجاج کی صورت ایک ہی آپشن بچے گا جس میں آر ہوگا یا پھر پار ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی نے اعتراف جُرم کرلیا ،دھرنا کینسل ، گنڈا پور فارمولہ 

مزیدخبریں