مریم صفدر نہیں مریم نواز ، شاباش بی بی شاباش 

عامر رضا خان

Mar 27, 2024 | 14:17:PM

Amir Raza Khan

مریم نواز کامیاب نہیں ہوں گی ، خاتون کس طرح ایک بڑے صوبے کو چلا پائیں گی ، گھاگ سیاستدان اور بیوروکریٹ اسے اپنی انگلیوں پر نچائیں گے، یہ بھلا کیسے پرفارم کریں گی یہ بزدار پارٹ ٹو ثابت ہوگی، ایک مکمل ناکام وزیر اعلیٰ پنجاب جو ساڑھے تین سال میں صرف گوگی ،پنکی گٹھ جوڑ کے سامنے" یس میم " بنا رہا، مریم بھی اسی طرح کی ایک حکمران ہوں گی ، یہ وہ سب باتیں تھیں جو  پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کے اقتدار میں آنے سے پہلے پھیلائی جارہی تھیں، ایک منظم منفی مہم چلائی جارہی تھی، سوشل میڈیا کا کون سا پلیٹ فارم تھا جو اس کے لیے استعمال نہیں ہوا لیکن ہوا کیا اس کے بین ہی برعکس اس کے خلاف چلائی جانے والی ہر مہم  آہستہ آہستہ دم توڑتی جاتی ہے، خیالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ مریم بہرطور بزدار سے تو بہتر ہی ہے ، یہ مریم نواز کی بہت بڑی نا سہی لیکن اقتدار کے ابتدائی ایام میں ہی ایک واضع کامیابی ضرور ہے ۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز روائتی سیاست سے کچھ ہٹ کر کرنا چاہتی ہیں ،انہوں اپنے اقتدار کے آغاز میں ہی جس رفتار سے عوام کی نبض کو پڑھنا سیکھ لیا ہے وہ بہت بڑے بڑوں کو برسوں میں بھی  نصیب نہیں ہوتا،صرف ایک واقعہ ہی میری اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مریم نواز کچھ بدلنے کے لیے میدان میں آئی ہیں، اس خبر کو ہی دیکھ لیں کہ جس میں مسلم لیگ ن کے بااثر ایم پی اے ملک وحید نے گاڑی کی چیکنگ کرنے پر پولیس اہلکار کی ناصرف سرزنش کی بلکہ بھر ےمجمع میں اُس سے معافی بھی منگوائی یہ خبر جب پولیس کے حلقوں سے ہوتی ہوئی میڈیا تک پہنچی تو میں نے اس کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اگر یہی چال چلن رہا تو مسلم لیگ ن اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھے گی کہ اس ایک واقعہ سے مستقبل پر وہ منفی اثرات مرتب ہوں گے جن کا خمیازہ اس جماعت کو بھگتنا پڑے گا لیکن مریم نواز نے بھی اس معاملے کی حساسیت کو سمجھا اور ٹرینی سب انسپکٹر یاسر نصیب کو اپنے پاس بلایا ایم پی اے کے سلوک پرٹرینی سب انسپکٹر یاسر نصیب سے اظہار ندامت کیااور کہا کہ میں اس واقعہ پر شرمندہ ہوں ۔

ضرورپڑھیں:آہ۔۔۔بائیس سالہ آصف اشفاق!

اُنہوں نے پورا واقعہ سنا جس میں یاسر نے بتایا کہ وہ روٹین کا گشت کررہے تھے، دو گاڑیاں گزر رہی تھیں ان کو روک کر چیک کیا باغبانپورہ کے علاقے شادی پورہ میں گاڑی کے سیاہ شیشے دیکھ کر روک کر چیک کیا ایم پی اے نے اتر کر کہاکہ میں اس علاقے کاایم پی اے ہوں، آپ نے چیک کیوں کیاہے؟ میں نے ایم پی اے کو بتایا کہ میری ڈیوٹی ہے، میں نے اپنی ڈیوٹی کی ہے، کوئی بری بات نہیں۔ ایم پی ا ے نے کہاکہ میرے علاقے میں مجھے روک کر چیک کرنے سے میری عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ایم پی اے نے مجھ سے سر عام معافی مانگنے کا مطالبہ کیا اور میں نے دباؤ میں ایم پی اے کے ساتھیوں کے تیور دیکھ کر معذرت کرلی ، مریم نواز نے واقعہ سننے کے بعد سب انسپیکٹر کو کہا ،یاسر آئندہ آپ نے اپنی ڈیوٹی کرنی ہے،آپ نے کسی سے نہیں ڈرنا ذمہ داری پوری کرنے پر کبھی کسی سے معافی نہیں مانگنی۔ آپ کاکام یہی ہے اور آپ نے  اپنا کام اچھے طریقے سے کرنا ہے،ایم پی اے ہو، ایم این اے ہو یا چیف منسٹر ہو ۔قانون سے بڑا کوئی نہیں، آپ نے بالکل ٹھیک کیا اس بات پر دل چھوٹا نہ کریں میں نے اپنے ایم پی اے کو شوکاز نوٹس دیاہےذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں۔
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے ٹرینی سب انسپکٹر یاسر نصیب کی ٹرانسفر کے بارے میں سی سی پی او بلال کمیانہ سے سے استفسار کیا اور کہا کہ آئندہ  اس قسم کا کوئی واقعہ ہو تو مجھ سے پوچھے بغیر کوئی ایکشن نہیں لینا ،ایم پی اے کو شکایت تھی تو اسے میرے پاس آنا چاہیے تھا، انکوائری کے بعد ہم ایکشن لیتے،کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہم سب کو قانون کا زیادہ احترام کرنا چاہیے تاکہ باقی لوگوں کے لئے مثال بنیں ، مجھے یقین ہے کہ سی سی پی او بلال کمیانہ سے دھیمے انداز میں کی جانے والی بات مستقبل میں پولیس افسران کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے سے روکے گی اور اور یاسر نصیب جیسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، پولیس کے جوانوں کا مورال بھی بلند ہوگا اور ایم پی اے حضرات بھی آنے والے دنوں میں خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھیں گے ۔

یہ بھی پڑھیں:مریم راج ، شیطان قید پولیس آزاد 
اب آئیے میرے آج کے بلاگ کے عنوان " مریم صفدر نہیں مریم نواز ، شاباش بی بی شاباش " کی جانب تو جناب مریم نواز کو بین ایسے ہی مریم صفدر کہہ کر پکارا جاتا تھا جیسا بی بی بے نظیر بھٹو شہید کو سیاسی مخالفین  بے نظیر زرداری کہہ کر پکارتے تھے اور  یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنے باپ کی سیاسی وارث نہیں ہیں، سیاست بڑی ظالم شئے ہے اس میں آپ کس نام سے پکارے جاتے ہیں اس سے زیادہ آپ کس کے طرز عمل کو اپناتے ہیں۔زیادہ اہم ہوتا ہے اور مریم نواز نے اب یہ ثابت کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ مریم نواز کہلانے کی زیادہ حقدار ہیں کہ اُن کی جماعت مسلم لیگ ن ۔اُن کے والد نواز شریف سے ہی موسوم ہے اور اب تو نواز شریف باقائدہ اپنی بیٹی کے اتالیق بن گئے ہیں اور اپنی دختر نیک اختر کے ساتھ فیصل آباد میں ریلوے ہاؤسنگ کالونی سمن آباد پہنچے اور دھاتی تار سے جاں بحق ہونے والے نوجوان آصف اشفاق کی رہائش گاہ پر آصف اشفاق کے والد محمد اشفاق اور دیگر اہل خانہ سے تعزیت اور دعائے۔
مغفرت کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے مرحوم آصف اشفاق کی والدہ کو گلے لگا کر تسلی دی اُس شہید کی والدہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ اُسے تو آصف کی شادی کرنا تھی لیکن جنازہ دیکھ لیا،مریم نواز نے ایک ماں بن کر دوسری ماں کو دلاسہ دیا اور کہا کہ سب ملکر اس جرم کو روکیں،خوفناک وڈیو دیکھی نہیں جاتی ماں ہوں اور ماں کے دکھ کو سمجھتی ہوں۔
آصف اشفاق کی دردناک موت پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے،پتنگ بازی تفریح نہیں خونی کھیل بن چکا ہےوالدین اپنے بچوں کو پتنگ بازی سے رو کنے کی سماجی ذمہ داری پوری کریں۔
دھاتی تار بنانے، بیچنے اور خریدنے پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی یہ ہے وہ سیاست کا نواز شریفانہ انداز جو 80 کی دہائی میں آپ کے والد نے اپنایا ،ہر دکھی دل کو تسلی دی، ہر مظلوم کے سر پر ہاتھ رکھا اور عوام نے انہین دو تہائی کی اکثریت تک پہنچا دیا تقریباً 40 سال بعد تاریخ کو ایک بار پھر اُسی سیاسی موڑ پر نواز شریف واپس لارہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر ایک بار پھر مقبولیت کے سفر کا آغاز کردیا ہے جس کا مزا وہ خود چکھ چکی ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست مردہ ہوگئی وہ شاید نہ سیاست کو سمجھتے ہیں نہ میاں محمد نواز شریف کو۔ کہ وہ اب اپنی بیٹی میں خود کو دیکھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھنے والا باپ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا سدا جوان رہتا ہے۔

نوٹ :بلاگرکے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

مزیدخبریں